ایکنا نیوز- ترکی کی خبر رساں ایجنسی "اناطولی" کے مطابق، مزمل ایوب ٹاکور، عالمی کشمیر آزادی تحریک کے رہنما نے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں مسلمانوں کے خلاف بھارتی حکومت کی ثقافتی نسل کشی اور منظم جبر کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ موجودہ صورتحال ناقابل تصور ہے۔
ٹاکور نے ایک انٹرویو میں کہا کہ بھارت کی پالیسیاں کشمیری مسلمانوں کی اسلامی شناخت اور ان کے سماجی ڈھانچے کو ختم کرنے کے لیے بنائی گئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ خطے میں مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے، وہ کسی بھی تصور سے بالاتر ہے اور قیامت کے دن کی ہولناکیوں جیسا منظر پیش کر رہا ہے۔
کشمیر پر کنٹرول کا تنازعہ جنوبی ایشیا کے طویل ترین تنازعات میں سے ایک ہے۔ 1947 میں آزادی کے بعد سے بھارت اور پاکستان دونوں اس مسلم اکثریتی علاقے پر مکمل دعویٰ رکھتے ہیں۔ اس تنازعے کے نتیجے میں چار جنگیں ہو چکی ہیں جن میں ہزاروں جانیں ضائع ہوئیں۔
1972 میں شملہ معاہدہ کے تحت لائن آف کنٹرول (ایل او سی) قائم کی گئی جس نے کشمیر کو بھارت اور پاکستان کے زیر انتظام حصوں میں تقسیم کیا، تاہم یہ لائن کشیدگی کو کم کرنے میں ناکام رہی، اور حالیہ برسوں میں بار بار فوجی جھڑپیں ہو چکی ہیں۔
ٹاکور نے کہا کہ کشمیر میں جو ہو رہا ہے وہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے کہیں آگے ہے۔ "یہ ایک منظم ریاستی جبر ہے جس کا شکار میں خود اور میرے خاندان کے کئی افراد بن چکے ہیں"۔
انہوں نے کہا کہ کشمیر میں:
· لاکھوں بچے یتیم ہو چکے ہیں۔
· ہزاروں خواتین کو "نیم بیواؤں" کا درجہ حاصل ہے، یعنی ان کے شوہر غائب یا قید ہیں مگر ان کا کوئی قانونی پتہ نہیں۔
ٹاکور نے مزید بتایا کہ: "بھارتی فوج عام شہریوں، حتیٰ کہ بچوں پر بھی شکار کے لیے مخصوص لوہے کی گولیاں چلاتی ہے جو ان کے جسم کے اوپری حصے کو نشانہ بناتی ہیں، اور یہ مستقل معذوری کا باعث بنتی ہیں۔"
انہوں نے انتہائی دل دہلا دینے والے واقعے کا ذکر کرتے ہوئے کہا: "۲۰۱۹ میں بھارتی اہلکار رات کے وقت بچوں کو گھروں سے نکال کر مساجد میں لے جاتے اور وہاں ان پر تشدد کرتے تھے۔ یہ تشدد لاؤڈ اسپیکر پر نشر کیا جاتا تاکہ اہلِ محلہ کو خوفزدہ کیا جا سکے۔"
مزمل ٹاکور نے کہا کہ یہ اقدامات ثقافتی نسل کشی کی واضح مثال ہیں۔ "بھارت کا مقصد نہ صرف زمین پر قبضہ ہے، بلکہ مسلمانوں کی شناخت، ثقافت، مذہب اور نسل کو بھی مٹانا ہے۔"
4282086