ایکنا: الٰہی نشانیوں کی تعظیم ایک پاکیزہ باطن اور پرہیزگار دل کی علامت ہے۔ جو شخص اپنے اندر تقویٰ رکھتا ہے، وہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں کے سامنے عاجز اور انکساری اختیار کرتا ہے۔
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے: «ذلِکَ وَ مَنْ یُعَظِّمْ شَعائِرَ اللَّهِ فَإِنَّها مِنْ تَقْوَى الْقُلُوبِ» "یہ ہے (حکمِ الٰہی)، اور جو شخص اللہ کی نشانیوں کی تعظیم کرتا ہے تو یہ دلوں کے تقویٰ میں سے ہے"۔
(الحج: 32)۔
جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے، "شعائر" "شعیرة" کی جمع ہے، جس کے معنی ایسی نشانیاں ہیں جو اللہ کی اطاعت اور عبادت کے لیے مقرر کی گئی ہیں۔ اس آیت میں "فَإِنَّها" کا ضمیر تعظیم شعائر کی طرف لوٹتا ہے، یعنی اللہ کی نشانیوں کا احترام دراصل دل کے تقویٰ کا مظہر ہے۔ دوسرے الفاظ میں، انسان کے دل اور شعائر کی ظاہری تعظیم کے درمیان گہرا تعلق پایا جاتا ہے۔
"تقویٰ" کا "قلوب" کی طرف نسبت دینا بھی اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ تقویٰ کی اصل جڑ انسان کا باطن اور اس کی خالص نیت ہے، نہ کہ محض ظاہری نمایش یا دکھاوا۔ ایسا تقویٰ جو صرف زبان یا عمل میں دکھائی دے، لیکن دل سے خالی ہو، وہ ایک دکھاوے والا تقویٰ ہے جو نفاق کی علامت ہے اور بے قدر ہے۔
تفسیر روح المعانی اس نکتے پر زور دیتی ہے کہ آیت میں "مِن" یا تو علت کے لیے ہے یا ابتداء کے لیے۔ دونوں صورتوں میں مطلب یہ بنتا ہے کہ شعائر کی تعظیم یا تو دل کے تقویٰ سے پیدا ہوتی ہے، یا اسی تقویٰ کے حصول کے لیے کی جاتی ہے۔ فخر رازی بھی "شعائر" کو ایسی نشانیاں قرار دیتے ہیں جو اللہ کے حکم کو پہچاننے کے لیے مقرر کی گئی ہیں؛ ایسی نشانیاں جنہیں انجام دینے میں سستی نہیں کرنی چاہیے بلکہ شوق و جذبے سے، بغیر کسی بہانے کے، ان کی طرف لپکنا چاہیے اور اللہ کی دعوت پر لبیک کہنا چاہیے۔
اس آیت سے چند اہم پیغام حاصل ہوتے ہیں:
· باطنی تقویٰ کا اثر عبادات اور ظاہری عمل میں ظاہر ہونا چاہیے؛
· شعائر سے بے اعتنائی دل کے تقویٰ کی کمزوری کی علامت ہے؛
· ان نشانیوں کی تعظیم خلوص اور پرہیزگاری سے ہونی چاہیے، نہ کہ مقابلے یا ریاکاری کے تحت؛
· اور آخرکار، اللہ کے نزدیک اصل معیار انسان کا دل ہے۔