ایکنا نیوز- سورہ بقرہ کی آیت 197 میں ارشاد ہوتا ہے:
"الْحَجُّ أَشْهُرٌ مَعْلُومَاتٌ فَمَنْ فَرَضَ فِيهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوقَ وَلَا جِدَالَ فِي الْحَجِّ وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ يَعْلَمْهُ اللَّهُ وَتَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوَى وَاتَّقُونِ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ"
یعنی: "حج کے مہینے مقرر ہیں، پس جو شخص ان مہینوں میں حج کا ارادہ کرے تو وہ (ایامِ حج میں) نہ شہوانی گفتگو کرے، نہ گناہ اور نافرمانی کرے اور نہ جھگڑا کرے۔ اور جو بھی تم نیکی کرو، اللہ اسے جانتا ہے۔ اور زادِ راہ لے لو، بے شک بہترین زادِ راہ تقویٰ ہے۔ اور اے عقل والو! مجھ سے ڈرو۔"
اس آیت میں "رفث" سے مراد جنسی تعلقات ہیں، "فسوق" سے مراد جھوٹ، بدکلامی اور نافرمانی ہے، اور "جدال" سے مراد بے جا قسمیں کھا کر جھگڑنا جیسے "نہیں! اللہ کی قسم" یا "ہاں! اللہ کی قسم" کہنا ہے۔
یہ آیت واضح کرتی ہے کہ یہ فریضہ الٰہی اخلاقی اور عملی حدود و قیود کے ساتھ ادا کیا جاتا ہے۔ ایامِ حج میں نامناسب گفتگو، گناہ اور جھگڑوں سے سختی سے منع کیا گیا ہے اور ان سے بچنے پر زور دیا گیا ہے۔
پھر قرآن یاد دلاتا ہے: "وَتَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوَى" یعنی "اور زادِ راہ لے لو، کہ بہترین زادِ راہ تقویٰ ہے"۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو اپنی روحانی منزل کے لیے تقویٰ کا سامان تیار کرنا چاہیے۔
اس آیت میں تقویٰ کو نہ صرف حج کا مقصد قرار دیا گیا ہے بلکہ اسے دینی زندگی کے سفر کے لیے بہترین زادِ راہ بھی بتایا گیا ہے۔ اس لحاظ سے، حج ایک ایسا عمل ہے جو انسان کو اخلاقی طرزِ عمل کی مشق، خودپسندی کو ترک کرنے، اور خالص بندگی پر توجہ دینے کا موقع فراہم کرتا ہے۔/