ایکنا نیوز- سورہ آلِ عمران کی آیاتِ حج (آیات 96-97) سے پہلے یہ آیت شریفہ آتی ہے: "فَاتَّبِعوا مِلَّةَ إِبراهیمَ حَنیفاً وَ ما كانَ مِنَ المُشرِكینَ" (آل عمران: 95) یعنی: "ابراہیمؑ کے پاکیزہ دین کی پیروی کرو، جو خالص توحید پر مبنی تھا اور ہر طرح کے شرک سے پاک تھا۔"
اس تسلسل کی تفسیر میں آیا ہے کہ: ابراہیم علیہ السلام کے دین کی پیروی کی ایک روشن مثال، خانۂ کعبہ کی تعظیم ہے جو اہل ایمان کا قبلہ اور طواف کی جگہ ہے۔
اسی بنیاد پر، قرآن کریم نے ابراہیمؑ کی پیروی کا ذکر کرنے کے فوراً بعد آیت "اِنَّ اَوَّلَ بَیت..." بیان فرمائی، تاکہ اہل کتاب، خاص طور پر یہودی، جو خود کو ابراہیمؑ کا پیروکار کہتے تھے، اس حقیقت کی طرف متوجہ ہوں کہ اگر وہ واقعی اپنے دعوے میں سچے ہیں، تو انہیں چاہیے کہ کعبہ، جو حضرت ابراہیمؑ کی تعمیر کردہ ہے، پر ایمان لائیں اور اسے اپنا قبلہ تسلیم کریں۔
حقیقت میں، قرآن مجید اہل کتاب کے شبہات کا جواب دے رہا ہے۔ اسلام کے ابتدائی دور میں، اہل کتاب نے مسلمانوں پر دو اعتراضات کیے:
قرآن نے ان دونوں اعتراضات کا واضح جواب دیا:
لہٰذا، کعبہ کی طرف رجوع کرنا دین سے انحراف نہیں بلکہ اصل دین اور انبیاء کی سنت کی طرف واپسی ہے؛ ایسا قبلہ جس میں طواف اور عبادت کے ساتھ توحید کی روشن نشانیاں اور حضرت ابراہیم خلیلؑ کی یاد نمایاں طور پر جلوہ گر ہے۔/
3493342