مظلومیت امام حسین (ع)

IQNA

امام حسین (ع) قرآن میں (2)

مظلومیت امام حسین (ع)

7:33 - July 05, 2025
خبر کا کوڈ: 3518742
ایکنا: امام حسین علیہ السلام کی مظلومیت اس قدر نمایاں اور گہری ہے کہ اسے قرآن کریم کی بعض آیات کا عملی مصداق قرار دیا جا سکتا ہے۔

ایکنا نیوز- جب امام حسین علیہ السلام نے یزید کی ظالمانہ اور ناجائز حکومت کے خلاف قیام کیا، تو ابتدا میں آپ تنہا اور بے یار و مددگار رہ گئے۔ کوئی بھی آپ کی مدد کو نہ آیا۔ بالآخر آپ کو محاصرے میں لے لیا گیا اور ایک خونریز معرکے کے بعد شہید کر دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ امام حسین علیہ السلام کی مظلومیت اس قدر آشکار اور عمیق ہے کہ اسے قرآن مجید کی بعض آیات کا روشن نمونہ سمجھا جا سکتا ہے۔

قرآن کی ایک آیت میں اللہ تعالیٰ نے انسان کے خون کو محترم قرار دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ جو شخص ناحق قتل کیا جائے، اس کے ولی کو قصاص اور خونخواہی کا حق دیا گیا ہے:

«وَ لا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتي‏ حَرَّمَ اللَّهُ إِلاَّ بِالْحَقِّ وَ مَنْ قُتِلَ مَظْلُوماً فَقَدْ جَعَلْنا لِوَلِيِّهِ سُلْطاناً...» (اسراء/۳۳)

’’اور اس جان کو جسے اللہ نے محترم قرار دیا ہے، ناحق قتل نہ کرو، اور جو شخص مظلوم قتل کر دیا جائے، ہم نے اس کے ولی کو (قصاص کا) اختیار دیا ہے۔ (سورۂ اسراء، آیت 33)

انسانی جان کی حرمت ایسی حقیقت ہے جو تمام آسمانی ادیان اور اخلاقی نظاموں میں مسلم ہے۔ تاہم اسلامی روایات میں مظلومانہ قتل کی سب سے نمایاں مثال، امام حسین علیہ السلام اور ان کے باوفا ساتھیوں کے خون کو قرار دیا گیا ہے۔ بعض احادیث میں آیا ہے کہ امام حسین علیہ السلام کے خون کے ولی وہی مہدی موعود (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) ہوں گے، جو آخری زمانے میں قیام کریں گے تاکہ امام حسین علیہ السلام کا انتقام لیں اور عدل و انصاف قائم کریں۔

قرآن کریم کی ایک اور آیت ان مظلوموں کی طرف اشارہ کرتی ہے جنہیں اپنے دفاع کے لیے جنگ کی اجازت دی گئی ہے:

«أُذِنَ لِلَّذينَ يُقاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَ إِنَّ اللَّهَ عَلى‏ نَصْرِهِمْ لَقَديرٌ» (حج/۳۹)

’’جن سے جنگ کی جا رہی ہے، انہیں (جوابی) جنگ کی اجازت دی گئی ہے، کیونکہ ان پر ظلم ہوا ہے، اور بے شک اللہ ان کی مدد پر قادر ہے۔‘  (سورۂ حج، آیت 39)

مفسرین اور محدثین کی ایک جماعت کے مطابق یہ آیت بھی امام حسین علیہ السلام کی مظلومیت کی طرف اشارہ کرتی ہے، کیونکہ آپ نے بھی دین خدا کے دفاع اور ظلم کے مقابلے کے لیے تلوار اٹھائی۔

دوسری طرف، قرآن کریم میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کے واقعے میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیا کہ وہ اپنے بیٹے کی جگہ اس دنبے کو قربان کریں جو آسمان سے نازل کیا گیا تھا۔ اس آیت میں اس عظیم قربانی کو "ذبح عظیم" کے الفاظ سے یاد کیا گیا ہے:

’’اور ہم نے اسے ایک عظیم قربانی کے بدلے فدیہ دے دیا۔ (سورۂ صافات، آیت 107)

بعض تفسیری روایات کی بنیاد پر "ذبح عظیم" صرف اس دنبے کی طرف اشارہ نہیں کرتا، بلکہ اس سے ایک عظیم تر حقیقت مراد ہے۔ کچھ مفسرین کا خیال ہے کہ یہ عظیم قربانی ابراہیم علیہ السلام کی نسل میں سے ایک ایسی ہستی کی طرف اشارہ ہے جس نے راہ خدا میں اپنا پاکیزہ خون بہایا، اور وہ شخصیت امام حسین علیہ السلام ہیں۔

ایک روایت کے مطابق، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو امام حسین علیہ السلام کی شہادت کا واقعہ سنایا، جس پر ابراہیم علیہ السلام شدید غم میں ڈوب گئے اور بہت زیادہ گریہ کیا۔

نظرات بینندگان
captcha