ایکنا نیوز- ہندوستان کی ریاست مہاراشٹرا کے ایک وزیر نے ہندو انتہاپسندوں کو مسلمانوں کے علاقوں پر حملے کی ترغیب دے کر فرقہ وارانہ نفرت اور تشدد کے خطرناک رجحان کو ہوا دی ہے، جس پر ملک و بین الاقوامی سطح پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا گیا ہے۔
اخوان آنلاین کی رپورٹ کے مطابق، ریاست مہاراشٹرا کے وزیر برائے بندرگاہوں اور ماہی گیری کی ترقی، نیتیش رانے نے ایک پریس کانفرنس کے دوران مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز زبان استعمال کرتے ہوئے ہندو انتہاپسندوں کو مسلمانوں کے علاقوں میں حملے کی ترغیب دی۔
یہ بیان اُس وقت سامنے آیا جب مہاراشٹرا ناونرمان سینا (MNS) کے کارکنوں نے ایک ہندو دکاندار کو محض اس لیے تشدد کا نشانہ بنایا کہ وہ ریاستی زبان مراتی نہیں بول رہا تھا۔
نیتیش رانے نے اس واقعے پر ردعمل دیتے ہوئے اشتعال انگیز انداز میں کہا:
"ایک ہندو شخص کو مارا گیا، اگر تم میں ہمت ہے تو ‘نال بازار’ یا ‘محمد علی روڈ’ (مسلمانوں کے علاقے) جاؤ اور اپنی طاقت دکھاؤ۔ کیا وہ لوگ مراتی زبان بولتے ہیں؟ تم میں اتنی ہمت نہیں کہ ان پر ہاتھ اٹھا سکو۔"
انہوں نے مزید کہا:
"کیا عامر خان (بالی وڈ کے معروف اداکار) یا جاوید اختر (شاعر و دانشور) مراتی بولتے ہیں؟ تم ان سے مراتی بولنے کا مطالبہ نہیں کرتے، لیکن خود غریب ہندوؤں کو مارنے میں لگے ہو۔"
اس موقع پر رانے نے ہندوستان میں ہندی زبان کے نفاذ کی مخالفت کو "ملک کو اسلامی ریاست بنانے کی سازش" قرار دے کر مزید اشتعال پھیلایا۔
واضح رہے کہ مہاراشٹرا، تامل ناڈو، کرناٹک اور کیرالا جیسی ریاستیں طویل عرصے سے مرکزی حکومت کی ہندی زبان مسلط کرنے کی پالیسیوں کی مخالفت کر رہی ہیں، جنہیں وہ اپنی ثقافتی اور لسانی شناخت کے لیے خطرہ سمجھتی ہیں۔
یہ تنازع اُس وقت شدت اختیار کر گیا جب ہندی زبان کو اسکولوں کے نصاب میں شامل کیا گیا، تاہم عوامی دباؤ اور مظاہروں کے بعد حکومت کو اپنے فیصلے سے پسپائی اختیار کرنا پڑی۔
ان خطرناک حالات کے پیشِ نظر اتحادِ بینالمللی علماء مسلمین (International Union of Muslim Scholars) نے ایک سخت بیان جاری کرتے ہوئے بھارت میں مسلمانوں کے حقوق کے دفاع کے عزم کا اعادہ کیا اور نسلی و مذہبی امتیاز پر مبنی پالیسیوں کو مسترد کیا۔
بیان میں کہا گیا: "ہم ہر اُس قانون، اقدام یا منصوبے کی شدید مذمت کرتے ہیں جو نسل پرستی یا مذہبی امتیاز پر مبنی ہو، خاص طور پر وہ ناعادلانہ قانون جو مسلمانوں کی اوقاف پر حکومتی کنٹرول کو قانونی جواز دیتا ہے۔"
علماء نے خبردار کیا کہ "یہ قوانین اور پالیسیز نہ صرف نفرت کو فروغ دیتی ہیں بلکہ معاشرتی ہم آہنگی اور سماجی ساخت کو شدید خطرے میں ڈالتی ہیں۔/