ایکنا نیوز- المیادین کی رپورٹ کے مطابق، یونیسیف کے علاقائی ترجمان سلیم عویس نے غزہ کی پُرتشدد اور ابتر صورتِ حال کی جانب توجہ دلاتے ہوئے کہا ہے کہ نوارِ غزہ اس وقت دنیا میں بچوں کے لیے سب سے خطرناک جگہ بن چکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ "بچپن کی حقیقت غزہ میں انتہائی دردناک ہے۔ وہاں کے رہائشیوں نے ابتداء سے ہی جو تباہ کن حالات برداشت کیے ہیں، ان کے پیش نظر غذائی قلت اور بھوک کے بحران کے مزید پھیلنے کا حقیقی خطرہ موجود ہے، جس کے اثرات پوری آبادی پر مرتب ہو رہے ہیں۔"
سلیم عویس نے مزید کہا کہ "یونیسف اپنے کام کو غزہ میں جاری رکھے ہوئے ہے، تاہم موجودہ حالات کے باعث آزادانہ نقل و حرکت ممکن نہیں رہی، جس سے امدادی سامان کی فراہمی میں شدید رکاوٹ پیش آ رہی ہے۔"
انہوں نے کہا کہ "فی الحال ہماری توجہ ہنگامی اور زندگی بچانے والی امداد کی فراہمی پر ہے، لیکن بدقسمتی سے وہ غذائی ذخائر ختم ہو چکے ہیں جو غذائی قلت کو روکنے کے لیے ضروری تھے، جس سے صحت کی صورتِ حال مزید بگڑ گئی ہے۔"
سلیم عویس نے انکشاف کیا کہ صرف مئی کے مہینے میں پانچ ہزار ایک سو (5,100) بچوں کو غذائی بحران کے باعث اسپتال میں داخل کیا گیا، جبکہ غزہ میں 4 لاکھ 70 ہزار سے زائد افراد شدید غذائی قلت کا شکار ہیں اور پوری آبادی قحط کے خطرے سے دوچار ہے، جسے انہوں نے "انتہائی خوفناک صورتحال" قرار دیا۔
اسی تناظر میں، اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کی خصوصی نمائندہ فرانچسکا آلبانیز نے ایکس (سابق ٹوئٹر) پر لکھا کہ "صہیونی دشمن" بچوں کے قتل اور لاکھوں افراد کو بھوکا رکھنے کے ذریعے فلسطینیوں کو غزہ سے مٹانے کی نیت رکھتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ "غزہ میں قحط اپنی انتہا کو پہنچ چکا ہے اور وہاں جو کچھ ہو رہا ہے، اسے بیان کرنے کے لیے الفاظ موجود نہیں۔ عالمی برادری اسرائیل کو ان مظالم پر انعام دے رہی ہے، اور غزہ، عالمی بے حسی کے باعث بچوں کے لیے ایک قبرستان بن چکا ہے۔"
فرانچسکا آلبانیز نے مزید کہا کہ "محاصرہ اور امداد کی ترسیل پر عائد پابندیاں اموات میں اضافے کا باعث بن رہی ہیں" اور انہوں نے اس انسانی المیے کو فوری طور پر ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔/
4295445