محسن قاسمی، جو اسلامی جمہوریہ ایران کی نمائندگی کرتے ہوئے کوالالمپور (11 تا 18 اگست) میں منعقدہ 65 ویں بین الاقوامی قرآن کریم مقابلے میں شریک ہوئے، مرد حضرات کے شعبہ تحقیق قرائت میں چوتھی پوزیشن حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ ان سے اس مقابلے میں شرکت اور اس کے انعقاد سے متعلق ایک گفتگو کی گئی جو ذیل میں پیش ہے۔
سوال: آپ کے نزدیک ملائیشیا کے قرآن مقابلوں کی حیثیت کیا ہے؟ ان مقابلوں کی پینسٹھ سالہ تاریخ اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ منتظمین کو بے حد تجربہ ہے۔ میں نے ان مقابلوں میں جانے سے پہلے ہی ان کے نظم و ضبط کے بارے میں سنا تھا اور وہاں پہنچ کر اس حقیقت کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ مختلف مراحل میں بہترین تقسیم کار کے ساتھ سب نے اپنی ذمہ داریاں بخوبی انجام دیں۔ افتتاحیہ اور اختتامیہ کے لیے بھی خصوصی پروگرام تیار کیا گیا تھا اور دو دن پہلے مشقی تقریب منعقد ہوئی تاکہ تمام شرکاء اپنی جگہ اور ترتیب کو سمجھ سکیں۔
سوال: آپ کی قرعہ اندازی مقابلے کی دوسری شب کے لیے نکلی۔ کیا اگر آپ کو آخری دنوں میں تلاوت کا موقع ملتا تو آپ کے نتائج مختلف ہو سکتے تھے؟ جی ہاں، میری قرعہ اندازی دوسری رات کے لیے نکلی۔ میرے تجربے کے مطابق، آخری ایام خصوصاً مقابلے کے اختتامی دن سے ایک دن پہلے تلاوت کرنا سب سے موزوں وقت ہوتا ہے، کیونکہ اس وقت تک ججز مقابلے کے معیار کو اچھی طرح سمجھ چکے ہوتے ہیں اور اکثر تلاوتیں سن چکے ہوتے ہیں، جو نمرات دینے میں مثبت اثر ڈالتا ہے۔ تاہم یہ کوئی اصول نہیں، بعض اوقات پہلے دن کے قارئین بھی بہترین تلاوت پیش کر جاتے ہیں۔ دراصل قرعہ اندازی نصیب اور قسمت پر منحصر ہے۔
سوال: آپ نے چوتھی پوزیشن حاصل کی، لیکن پہلی پوزیشن کیوں نہ لے سکے؟ میں نے تلاوت کو مکمل طور پر ملائیشیا کے قوانین کے مطابق پیش کیا۔ یہاں تک کہ جب میرے دس منٹ مکمل ہوئے اور گھنٹی بجی تو میں نے جاری آیت کو ختم کیا، جس پر کوئی منفی نمبر نہیں کٹا۔ میری تلاوت ترتیب اور اسلوب کے لحاظ سے درست تھی، مگر آواز میں پیدا ہونے والی رکاوٹ کی وجہ سے قیمتی نمبر ضائع ہوئے۔ جب میں مقام بیات سے مقام نہاوند میں منتقل ہوا تو آواز میں گرفتگی آگئی اور مقام رَست میں داخل ہوتے ہی آواز بھاری ہوگئی، جس کے باعث میں اونچی لے تک نہ جا سکا۔
حالانکہ میری اصل کوشش یہ تھی کہ زیادہ صوتی تنوع دکھاؤں۔ اگرچہ تجوید اور لحن کے حوالے سے میری تلاوت میں کوئی بڑی خامی نہیں تھی، لیکن ملائیشیا کے مقابلوں میں آواز پر خاص توجہ دی جاتی ہے۔ اسی وجہ سے تقریباً پانچ نمبر کم ہوئے۔ اگر آواز میں یہ مسئلہ نہ ہوتا تو میں کم از کم دوسری پوزیشن ضرور حاصل کر لیتا۔ میری تلاوت کی سب سے نمایاں خصوصیت سکون اور اطمینان تھا، جو سرکاری مقابلوں میں کم ہی نصیب ہوتا ہے، لیکن صاف الفاظ میں کہنا چاہوں گا کہ آواز کی گرفتگی نے سب بگاڑ دیا۔/
4300223