ایکنانیوز کے مطابق، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پیر کے روز مقامی وقت کے مطابق مصر کے شہر شرم الشیخ میں علاقائی رہنماؤں کے ہمراہ غزہ امن معاہدے پر دستخط کیے۔ معاہدے پر دستخط کے بعد انہوں نے اسے “بہت اہم” قرار دیا اور پھر واشنگٹن روانہ ہوگئے۔
ٹرمپ، جو بظاہر اس اجلاس کی قیادت سے لطف اندوز ہو رہے تھے، نے اپنے عملے اور معاونین کا شکریہ ادا کیا جن کی کوششوں سے، ان کے بقول، “سب سے مشکل سمجھوتہ” ممکن ہوسکا۔
انہوں نے کہا: میں سمجھتا تھا کہ شاید یہ سب سے مشکل اجلاس ہوگا، اور کئی لحاظ سے ایسا ہی تھا، لیکن ہمارے پاس بے پناہ صلاحیتیں موجود تھیں۔ یہاں موجود ممالک نے ہماری بہت مدد کی۔
اس تقریب میں قطر، مصر اور ترکی کے رہنماؤں نے بھی شرکت کی، جو اس معاہدے کے کلیدی ثالث سمجھے جاتے ہیں۔ تاہم قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ اس امن معاہدے کے دو اہم فریق — یعنی اسرائیل اور حماس — دستخطی تقریب میں شریک نہیں تھے۔
ٹرمپ نے شرم الشیخ میں جنگِ غزہ کے خاتمے کی کوششوں پر زور دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ: یہ نقطہ حاصل کرنے میں 500 سے 3000 سال لگے ہیں۔
انہوں نے اجلاس کے آغاز میں کہا: ہم ایک ایسا دستاویز پر دستخط کرنے جا رہے ہیں جو قوانین، ضوابط اور کئی دیگر امور کو واضح کرے گا۔ یہ ایک جامع دستاویز ہے۔
ٹرمپ نے مزید کہا کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی بہت اچھے انداز میں آگے بڑھ رہی ہے۔
مصری صدر عبدالفتاح السیسی کے ساتھ کھڑے ہو کر ٹرمپ نے کہا: سب کہتے تھے کہ یہ ناممکن ہے، لیکن یہ آپ کی آنکھوں کے سامنے ممکن ہو رہا ہے۔
80 فیصد قدیم فلسطینی قیدیوں کی آزادی
آج، 20 اسرائیلی قیدیوں کے بدلے تقریباً 2000 فلسطینی قیدیوں اور زیر حراست افراد کو صہیونی جیلوں سے رہا کیا جا رہا ہے۔
ایک ممتاز فلسطینی ماہر نے بتایا کہ 137 قدیم ترین فلسطینی قیدیوں کے نام اس فہرست میں شامل ہیں جو آج فلسطینی مزاحمت اور اسرائیلی قابض فوج کے درمیان نئے قیدیوں کے تبادلے کے تحت رہا کیے جائیں گے۔
اس فلسطینی ماہر نے زور دے کر کہا: یہ کامیابی فلسطینی عوام اور مزاحمتی تحریک کے لیے ایک عظیم قومی کارنامہ ہے۔/
4310600