ایکنا نیوز، روزنامہ الوطن نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ خالد سلطان، جوش، غم، خوشی اور خوف سے بھرے جذبات لیے ہوئے، دل کی تیز دھڑکن کے ساتھ اپنے اس گھر کے کھنڈرات کی طرف بڑھا جو جارح قابض فوجوں نے وحشیانہ انداز میں تباہ کر دیا تھا۔
ملبے پر چلتے ہوئے اس کے قدم لڑکھڑا رہے تھے۔ وہ اس مقام کے باقی ماندہ حصوں کو دیکھ رہا تھا جو کبھی اس کے خوابوں، یادوں اور بچپن کی حسین لمحات کی آماجگاہ تھا۔ وہ اپنے بچپن کی یادوں، ان گرم راتوں کو یاد کر رہا تھا جو اس نے اپنے خاندان کے ساتھ گزاریں، اور اپنی تباہ شدہ کوٹھڑی کے نشانات ڈھونڈ رہا تھا۔ اچانک جیسا کہ خالد بیان کرتا ہے اسے خدا کی طرف سے ایک پیغام محسوس ہوا۔
"فَاسْتَبْشِرُوا بِبَيْعِكُمُ الَّذِي بَايَعْتُمْ بِهِ وَذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ" "پس اس سودے پر خوش ہو جاؤ جو تم نے اللہ سے کیا ہے، اور یہی سب سے بڑی کامیابی ہے۔" (سورۂ توبہ، آیت 111)
یہی آیت خالد کو اپنے تباہ شدہ گھر کے ملبے میں کھلی ہوئی قرآنِ مجید کی ایک آیت کے طور پر ملی۔ اس نے اسے بلند آواز سے پڑھا اور اسے ایک الہی پیغام قرار دیا — ایک یاد دہانی کہ فلسطینیوں کی قربانیاں، ان کے گھروں اور پیاروں کے لیے دی گئی جدوجہد، بے کار نہیں بلکہ ایک عظیم کامیابی کے سفر کا حصہ ہے۔
یہ پیغام اس نوجوان فلسطینی کے دل پر گہرے اثرات چھوڑ گیا جو دو سالہ غزہ کی جنگ کے بعد تباہی کے اس منظر میں امید تلاش کر رہا تھا۔
اپنے گھر کی حالت بیان کرتے ہوئے خالد نے کہا: ہمارا گھر ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے۔
لیکن اس نے ہمت نہیں ہاری۔ اس نے اپنی ویران دیواروں کی باقیات کو دیکھ کر ہاتھ اٹھائے، شکر ادا کیا اور کہا:
اے خدا! تیرا شکر ہے۔ مجھے یقین نہیں آتا کہ میں اپنے گھر واپس آگیا ہوں۔ ہمارا گھر شمالی غزہ پٹی میں تباہ ہو چکا ہے، مگر مجھے یہاں واپس آ کر بےحد خوشی ہے۔ میرے لیے یہ گھر دنیا کے تمام محلوں سے زیادہ قیمتی ہے۔/
4310693