
تلاوت میں ابداع (Innovations) سے متعلق تحقیقی مطالعات ایسے مواد فراہم کرتے ہیں جن کی بنیاد پر جدت پر مبنی تلاوت ممکن ہے۔ مہدی غلامنژاد، بین الاقوامی قاری قرآن نے ایکنا کے ساتھ گفتگو میں کہا: ایران کے اکثر قاری اس صلاحیت کے حامل ہیں کہ وہ بداہہ خوانی کے ذریعے اپنی تلاوت میں کچھ نئے پہلو شامل کر سکیں، جنہیں ابداع کہا جا سکتا ہے۔ لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ ابداع کے لیے بھی ایک واضح دائرہ اور حدود مقرر ہونی چاہئیں، تاکہ قاری اپنی مرضی اور خواہش کے مطابق ہر چیز شامل کرکے تلاوت کے معیار سے دور نہ ہو جائے۔
انہوں نے کہا: اگر قاری ہر بار نئی چیزیں شامل کرے اور ہر اضافے کو ابداع قرار دے، تو کچھ عرصہ بعد ہم ایسی تلاوتوں کا سامنا کریں گے جن میں نہ فنی اصول ہوں گے اور نہ ہی کوئی معیار، اور فنی مقامات اور روایتی نغمات بھی باقی نہیں رہیں گے۔
بین الاقوامی قاری نے مزید وضاحت کی: قاری قرآن کو چاہیے کہ حتی اگر وہ ابداع شامل کرے، پھر بھی کچھ سرخ لکیریں (خطوطِ حد) اپنے لیے مقرر کرے تاکہ تلاوت ایک طے شدہ دائرے کے اندر پیش کی جائے۔ تلاوت میں صرف فنی نکات کافی نہیں، بلکہ ردھم، احساس اور کیفیت بھی اہم ہیں؛ اگر قاری ان سے ہٹ جائے تو سامع کو جھٹکا محسوس ہوتا ہے۔ اس راستے میں تجوید کی رعایت خودبخود قاری کو وہ حدود دکھا دیتی ہے جن کے اندر تلاوت ہونی چاہیے۔
غلامنژاد نے مزید کہا: اس صورتحال کا دوسرا رخ بھی ہے، اور وہ یہ کہ سرکاری مقابلوں میں قاری کو حد سے زیادہ پابند کر دیا جاتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بے روح تلاوتیں سامنے آتی ہیں جو صرف ججوں کی پسند کو پورا کرتی ہیں، سامعین کے دلوں کو نہیں چھوتیں۔ یوں کبھی کبھار ایسا ہوتا ہے کہ ایک قاری بہت سا انعام جیت لیتا ہے، لیکن عام سامعین کے نزدیک اس کی تلاوت خوش آہنگ نہیں ہوتی، کیونکہ وہ صرف ججوں کی مخصوص سلیقے کی پابند ہوتی ہے۔
آخر میں یاد رہے کہ اساتذہ، قراء اور نامور حفاظ کرام کی بیسویں تخصصی نشست ایرانی قاریوں کی تلاوت میں ابداع کی ضروریات بدھ سے جمعہ، تک حسینیہ الزہرا(س)، مجتمع امام خمینی(رہ) میں منعقد ہوگی۔/
4317168