
ایکنا نیوز- عربی 21 کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ سوینندو آدیکاری، جو بھارت کی حکمران ہندو قوم پرست جماعت کے رکن اور مغربی بنگال کی ریاستی اسمبلی کے رکن ہیں، کے ان بیانات پر بھارت میں شدید تنقید کی جا رہی ہے جن میں انہوں نے بنگلہ دیش کے ساتھ ویسا ہی سلوک کرنے کا مطالبہ کیا جیسا اسرائیلی قابض افواج نے غزہ کی پٹی میں کیا۔
اخبار انڈین ایکسپریس کے مطابق، آدیکاری نے بنگلہ دیش کے ساتھ جاری کشیدگی کے بارے میں کہا : ہمیں بنگلہ دیش کو وہی سبق دینا چاہیے جو اسرائیل نے غزہ میں دیا۔
آدیکاری نے مزید کہا کہ بھارت، جہاں تقریباً ایک ارب ہندو آباد ہیں، ایسی حکومت کے زیرِ انتظام ہے جو ہندوؤں کے مفادات کی خدمت کرتی ہے۔
ان بیانات پر ملک کے سیاسی اور میڈیا حلقوں میں شدید غم و غصے کا اظہار کیا گیا۔ کانگریس پارٹی نے حکمران جماعت پر الزام عائد کیا کہ وہ نفرت اور عدم برداشت کو اپنی سیاست کا محور بنا رہی ہے، جبکہ آدیکاری کے بیانات کو کھلی نفرت انگیزی قرار دیا۔
ساگاریکا گھوش، کانگریس ترینامول پارٹی کی سرکردہ رہنما، نے کہا کہ آدیکاری نے واضح طور پر بنگلہ دیش کے خلاف غزہ جیسے آپریشن کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیرِ اعظم نریندر مودی کی حکومت ایسے پیغامات دے رہی ہے جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت صرف ہندوؤں کے لیے مخصوص ہے، اور یہ گندی تقسیم کرو اور حکومت کرو کی پالیسی بنگال میں کامیاب نہیں ہوگی۔
بھارتی قومی کانگریس کے رہنما کپل سبل نے اس امر کی نشاندہی کی کہ آدیکاری کے بیانات کی سنگینی کے باوجود ان کے خلاف اب تک کوئی قانونی کارروائی شروع نہیں کی گئی۔
یہ پیش رفت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب نئی دہلی اور ڈھاکہ کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کشیدگی میں اس دعوے نے بھی شدت پیدا کی ہے کہ بھارت آئندہ سال ہونے والے انتخابات سے قبل بنگلہ دیش کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی کوشش کر رہا ہے، نیز بنگلہ دیش میں ان مظاہروں نے بھی صورتحال کو سنگین بنایا ہے جن میں سابق وزیرِ اعظم شیخ حسینہ واجد کی حوالگی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے، جنہیں سزائے موت سنائی جا چکی ہے اور وہ اس وقت بھارت میں مقیم ہیں۔
اسی تناظر میں، بنگلہ دیش نے ڈھاکہ میں بھارت کے ہائی کمشنر پرنائے ورما کو طلب کیا، جبکہ بھارت نے جوابی اقدام کے طور پر نئی دہلی میں بنگلہ دیش کے ہائی کمشنر ریاض حمیداللہ کو سیکیورٹی صورتحال سے متعلق خدشات کے باعث طلب کیا۔
یہ کشیدگی 18 دسمبر کو معروف بنگلہ دیشی کارکن شریف عثمان بن ہادی کی ہلاکت کے بعد مزید بڑھ گئی، جو 12 دسمبر کو ایک مسلح حملے میں زخمی ہونے کے باعث جان کی بازی ہار گئے تھے۔ اس واقعے کے بعد بنگلہ دیش میں بڑے پیمانے پر احتجاج شروع ہو گیا۔
اسی دن بنگلہ دیش کے علاقے میمین سنگھ میں دیپو چندرا داس نامی ایک ہندو مزدور کی ہلاکت نے صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا دیا، جس کے نتیجے میں بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی میں بنگلہ دیشی سفارت خانے کے سامنے احتجاجی مظاہرے بھی کیے گئے۔/
4325579