ایکنا نیوز- لندن یونیورسٹی میں اسلامی علوم کے استاد اور عراقی نژاد قرآنی محقق علی رمضان الاوسی نے ایکنا نیوز سے گفتگو میں کہا کہ داعش القاعدہ اور طالبان کی تیارکردہ فورس ہے جسکی پشت پر امریکہ،اسرائیل اور سعودی عرب جیسے ممالک ہیں جو ان ممالک کی حمایت سے اسلام کا چہرہ خراب کرنے کی سازش پر عمل پیرا ہے
الاوسی نے کہا کہ اسرائیل اور امریکہ کی سازش پر عمل پیرا داعش جغرافیائی خدوخال کو تبدیل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے اور شام میں شکست کے بعد عراق کو تقسیم کرنے کی ناپاک سازش پر عمل پیرا ہے
لندن یونیورسٹی کے استاد نے کہا کہ موصل میں داخل ہونے کے بعد داعش کا خیال تھا کہ وہ صدام کے سابقہ دوستوں کے تعاون سےعراق پر بہ آسانی قبضہ کرلے گا مگر آیت اللہ سیستانی کے فتوی نے داعش کے نقشے اور سازش کو خاک میں ملا دیا
الاوسی نے کہا کہ شام کے بعد عراق میں بھی داعش کی جانب سے کئی کلیسا اور دیگر عبادت خانے بھی نذر آتش کئے جاچکے ہیں کیونکہ داعش اسلام اور عیسائی کسی مذہب کے لیے احترام کا قایل نہیں اور انکی کوشش ہے کہ عراق میں فرقہ وارانہ فسادات شروع کیا جائے۔
الاوسی نے کہا کہ داعش موصل میں نینوا کے گورنر کی خیانت اور خود فروشی کی وجہ سے کئی علاقوں پر قابض ہوا اور مختلف علمی ،ثقافتی اور تاریخی مقامات کو نذر آتش کرنے کے بعد اہم تاریخی نوادرات یورپ ،ترکی اور اسرائیل وغیرہ کو فروخت کرچکا ہے
الاوسی نے داعشی مظالم کے حوالے سے کہا کہ انہوں نے عیسائی آبادی سے جزیہ طلب کیا اور ان پر بھی مظالم ڈھائے۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردوں کا نہ دین ہوتا ہے نہ کوئی سرحد، لہذا جسطرح یہ لوگ شام میں شکست کے بعد عراق میں داخل ہوئے ہیں کہا جاسکتا ہے کہ انشاءاللہ یہ عراق میں بھی شکست سے دوچار ہوں گے اور اس وقت یہ سعودی عرب سمیت دیگر ممالک جیسے اردن ،ترکی اور کویت وغیرہ میں بھی داخل ہوسکتے ہیں
الاوسی نے وحدت کو راہ نجات بتاتے ہوئے کہا کہ تمام گروہوں اور حکومت کی وحدت سے ہی ان دہشت گردوں کا راستہ روکا جا سکتا ہے
انہوں نے عالمی سطح پر زمہ داریوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ اقوام متحدہ ،سلامتی کونسل سمیت تمام یورپی ممالک اور واٹیکن بھی داعش کے خلاف آواز بلند کرے کیونکہ دہشت گردی کی آگ سب کو بھسم کر سکتی ہے۔ الاوسی نے پیوٹن اور نوری مالکی کی ملاقات کے تناظر میں کہاکہ کہ روس کا کردار ہوشیارانہ اور دلیل پر مبنی ہے ۔انہوں نے کہا : تمام اسلامی ۔عربی اور یورپی میڈیا کو چاہئیے کہ وہ اس وقت بھر پور انداز میں داعش کے مظالم اور انسانیت سوز کاروائیوں کو عالمی سطح پر اجاگر کرے تاکہ ان دہشت گردوں کا حقیقی چہرہ ظاہر ہوجائے.