ایکنا نیوز-اسلام ٹائمزسے گفتگو میں جامعہ نعیمیہ اسلام آباد کے موسس اور مہتمم مفتی گلزار احمد نعیمی نے کہا: تاریخ کی روشنی میں دیکھیں تو قیام پاکستان میں صرف اور صرف اہلسنت علماء اور مشائخ، پیر جماعت علی شاہ، پیر آف مانکی شریف، پیر علامہ عبدالعلی میرٹھی جیسے بزرگوں کو قائد اعظم محمد علی رحمة اللہ علیہ کے ساتھ دیکھ رہے ہیں، لیکن قیام پاکستان کے بعد علماء اور مشائخ ملکی سیاست سے کنارہ کش ہوگئے، اور وہ لوگ جو قیام پاکستان کے مخالف تھے، ملکی سیاست کی باگ ڈور انہوں نے سنبھال لی۔ قیام پاکستان میں ہراول دستے کا کردار ادا کرنے والے علماء اور مشائخ اپنے حجروں، مدرسوں اور خانقاہوں میں جا کر نہ بیٹھتے تو یہ سیاسی خلا پیدا نہ ہوتا۔
انہوں نے کہا کہ میں سمجتا ہوں غلطی اہلسنت علماء اور مشائخ کی ہے کہ انہوں نے دوسروں کے لیے راستہ کھلا چھوڑ دیا اور خود سیاست سے کنارہ کش ہوگئے۔ ہمیں اس کمی کا شدت سے احساس ہے کہ پاکستان کو حقیقی اسلامی اور روحانی قیادت ملے، ہم اسکے لیے پوری جدوجہد کر رہے ہیں کہ پاکستان کی باگ ڈور پاکستان کے اصلی وارثوں کے ہاتھ میں آجائے۔ تحریک پاکستان میں اپنے کردار اور اسلام کی حقیقی روحانی تعلیمات کے وارث ہونے کے ناطے قیادت اہلسنت کو کرنی چاہیئے، اہلسنت کی آبادی دس کروڑ ہے، مسلک کے اعتبار سے ہم اکثریت ہیں، دیوبندی اور اہل تشیع آبادی میں کم ہیں۔ دوسرے مسالک اہلسنت کیساتھ شدت کا رویہ اختیار کرتے ہیں، لیکن اہلسنت کو چاہیئے کہ وہ اپنا قائدانہ کردار ادا کریں اور چھوٹے بھائیوں، شیعہ اور دیوبندیوں کیساتھ شدت کا رویہ اختیار نہ کریں۔
ایک سوال کے جواب میں مفتی نے کہا :پاکستان میں فلسطین کی صورتحال کے حوالے سے ردعمل کا اظہار تو ہوا ہے۔ ہمارے مدرسے سے باقاعدہ یوم القدس کا جلوس نکلا ہے، ایک بڑا سیمینار کروایا گیا ہے، عوام الناس کی بڑی تعداد شریک رہی ہے۔ لیکن اصل المیہ یہ ہے کہ داعش استعمار کی پروردہ ہے، انکا مقابلہ کرنے والا کوئی نہیں عالم عرب میں۔ وہ من گھڑت نظریات کے حامل ہیں، مسلمانوں کے خلاف لڑ رہے ہیں، پاکستان میں طالبان کی طرح عرب ممالک میں بھی شیعہ سنی تفریق کو ہوا دینے کے لیے داعش اہل تشیع اور اسلامی مقدسات کیخلاف جنگ کر رہی ہے۔ پاکستان میں یہ کیا گیا کہ مسالک کے درمیان مسلح حملے کروائے گئے، تاکہ دنیا کو یہ محسوس ہو کہ پاکستان مسلکی فسادات کا گڑھ ہے، استعماری قوتیں یہی کھیل عراق اور شام میں جاری رکھنا چاہتی ہیں۔