مسئلہ تفتان۔۔۔اہلِ تشیع کو مسلّح کرنیکی سازش

IQNA

مسئلہ تفتان۔۔۔اہلِ تشیع کو مسلّح کرنیکی سازش

12:52 - May 10, 2015
خبر کا کوڈ: 3281132
بین الاقوامی گروپ:شیعہ قوم یہ سوالات پوچھنے میں حق بجانب ہے کہ جس ملک میں ریاست کی طرف سے دوسرے ممالک سے آنے والے سکھ یاتریوں اور ہندوں کو تو فول پروف سکیورٹی مہیا کی جاتی ہے لیکن اس ملک کے اپنے شہریوں سے سرکاری اہلکار بھتہ وصول کرتے ہیں!؟ کیا پاکستان میں شیعوں کی حیثیت سکھوں اور ہندووں جتنی بھی نہیں رہی۔؟

ایکنا نیوز- گذشتہ دنوں میں نے مسئلہ تفتان یا مسئلہ کشمیر کے عنوان سے ایک کالم لکھا تھا اور اس میں یہ موقف اختیار کیا تھا کہ ہم سب تفتان کے مسئلے کو سنجیدگی سے لیں اور حکومت پر دباو ڈالیں کہ مسئلہ تفتان کو مسئلہ کشمیر نہ بنایا جائے۔ اتفاق سے کچھ دن پہلے مجھے پاکستان کا چکر لگانے کا موقع ملا، جس کے بعد میں ایک مرتبہ پھر اس موضوع پر قلم اٹھانے پر مجبور ہوگیا ہوں۔ یہ اسی مارچ کے آخری ہفتے کی بات ہے۔ کوئٹہ کے ٹرمینل سے نکلنے کے بعد کوئٹہ شہر سے تقریباً 30 کلومیٹر کے فاصلے پر ایف سی کی پہلی چیک پوسٹ پر تفتان جانے والی بسوں اور مسافروں کی چیکنگ کے نام پر ہماری بس کو روکا گیا، ایف سی کے دو اہلکاروں نے سب مسافروں کے شناختی کارڈ چیک کئے اور سب سے سوال کیا کہ آپ لوگ کہاں جا رہے ہیں۔؟ بس میں اکثر مسافر ایران جانے والے تھے، کچھ کام کی غرض سے اور کچھ زیارات کے لئے۔ چیکنگ کے دوران مسافروں کو پتہ چلا کہ بس میں کوئی غیر ملکی بھی سوار ہے، وہ ایک جرمن سیاح تھا۔ ایف سی والوں نے اسی بات کو بہانہ بنا کر ایک گھنٹے تک تمام مسافروں کو وہاں روک کر ذلیل کیا اور اسکے بعد اس غیر ملکی کو اتارنے کی بجائے پوری بس کو کوئٹہ واپس کر دیا۔

صرف یہی نہیں ہوا بلکہ تمام مسافروں سے ایف سی کے اہلکاروں نے شناختی کارڈ لیکر، رینجرز اہلکاروں کے حوالے کر دیئے اور کہا کہ کویٹہ شہر پہنچ کر بس اڈے پر سب مسافروں کو کارڈ واپس کرنے ہیں۔ لیکن اب ذرا یہ تو جانیئے کہ اس جرمن سیاح کو بس میں بغیر سکیورٹی کے کس نے سوار کیا اور کس نے سوار کرایا؟؟ جب سکیورٹی کلیئر نہیں تھی تو اسکو بس میں کیوں سوار کیا گیا؟ محترم قاریین، آپکو یہ پڑھ کر اپنی بے کسی اور مظلومیت کا شدّت سے احساس کرنا چاہیے کہ اس جرمن سیاح کو خود پولیس اور ایف سی کے اہلکار ایک مقامی ایس ایچ او کے کہنے پر زبردستی بس میں سوار کرا کر گئے تھے، حالانکہ بس ڈرائیو نے انہیں ایسا کرنے سے منع کیا تھا کہ اسکو سوار مت کریں کیونکہ راستے میں خطرہ ہے اور آج کل دہشت گرد اغوا برائے تاوان کے لئے اسطرح کے لوگوں کے پیچھے رہتے ہیں اور دوسری بات جو یہاں قابل ذکر ہے کہ اس جرمن سیاح کے این او سی (NOC) پر یہ تاکید کی گئی تھی کہ اسے سکیورٹی کلیئر نہ ہونے کی صورت میں ہرگز سفر کی اجازت نہیں ہے، لیکن اس کے باوجود کوئٹہ جیسے خطرناک شہر کے ایک ایس ایچ او نے اگر اس سیّاح کو سوار کروایا تھا تو مفت میں تو نہیں کروایا ہوگا۔

بس اڈے پر تمام مسافروں کو شناختی کارڈ واپس کر دیئے گئے، اسکے بعد ایک دوسری بس کے ذریعے دوبارہ ہم لوگ تفتان بارڈر کے لئے روانہ ہوئے تو اب پھر سب مسافروں کے دل دھڑک رہے تھے کہ کہیں دوبارہ ہمیں کسی بہانے سے روک نہ لیا جائے، لیکن اللہ اللہ کرکے وہ چیک پوسٹ تو گزر گئی لیکن تقریباً رات گیارہ بجے کے قریب نوشکی شہر کے قریب ایک چیک پوسٹ پر دوبارہ ہماری بس کو روکا گیا، اب ایک دفعہ پھر تمام مسافر بہت زیادہ پریشان ہوئے کیونکہ وہاں پر موجود ایف سی اہلکاروں نے کہا کہ بس یہاں سے آگے نہیں جاسکتی۔ ہماری بے کسی کا اندازہ اس سے لگایئے کہ اس سے پہلے راستے میں بہت زیادہ چیک پوسٹیں آئی تھیں لیکن کسی نے اس طرح کی بات نہیں کی تھی، اب رات کے گیارہ بجے لق و دق صحرا میں مسافر بوڑھوں، بچوں اور خواتین کو قانون کے رکھوالے ہراساں کر رہے تھے۔ آپ صورتحال کا اندازہ لگایئے کہ جن لوگوں کے ساتھ خواتین اور بچے تھے، وہ اس تاریکی میں کتنے پریشان ہونگے۔

تقریباً دو گھنٹے تک مسافروں کو تڑپانے کے بعد قانون کے رکھوالوں نے کہا کہ پانچ سو روپے فی سواری کے حساب سے دو تو آگے جانے کی  اجازت ملے گی ورنہ ٹھیک ہے ابھی رات تم لوگ یہیں گزارو، پھر کل صبح کوئٹہ واپس چلے جانا۔ ڈرائیور نے ان کے مزاج کو سمجھتے ہوئے حسبِ موقع ان کی مٹّھی گرم کی اور تب جاکر بس کو آگے جانے کی اجازت ملی۔ یوں جس بس کو رات تقریباً 3 سے 4 بجے کے درمیان تفتان پہنچنا چاہیے تھا وہ صبح 7 بجے پہنچی۔ لیکن یہاں پر ہم انسانی حقوق کی تنظیموں، چیف آف آرمی اسٹاف، وزیراعظم، صدر مملکت، چیف جسٹس آف پاکستان، وزیر داخلہ، وزیراعلٰی بلوچستان، ڈی جی ایف سی اور دوسرے تمام اعلٰی حکام سے یہ سوال کرتے ہیں کہ آخر کیا وجہ ہے کہ اتنے عرصے سے بڑے منظم انداز میں اس روٹ پر مسافروں کو کبھی دہشت گردی کی آڑ میں قتل کیا جا رہا ہے، کبھی ڈاکووں کے بھیس میں لوٹا جا رہا ہے اور کبھی سرکاری اہلکار لوگوں کو تحفظ اور سکون فراہم کرنے کے بجائے رشوت سمیٹتے ہوئے نظر آتے ہیں، لیکن اس صورتحال پر قابو پانے کے لئے کوئی قدم نہیں اٹھایا جا رہا۔؟؟

کیا اس روٹ پر سفر کرنے والوں کا جرم یہ ہے کہ ان کی اکثریت شیعہ ہوتی ہے؟ کیا پاکستان میں رہنے والے شیعہ پاکستانی نہیں ہیں؟ کیا انکی سکیورٹی اور حفاظت کی ذامہ داری قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نہیں ہے؟ کیا پاکستان میں رہنے والے اہل تشیع کو اپنے مسلک اور مکتب کی تعلیمات کی روشنی میں اپنے مذہبی مراسم بجا لانے کی اجازت نہیں ہے؟؟ شیعہ قوم یہ سوالات پوچھنے میں حق بجانب ہے کہ جس ملک میں ریاست کی طرف سے دوسرے ممالک سے آنے والے سکھ یاتریوں اور ہندوں کو تو فول پروف سکیورٹی مہیا کی جاتی ہے لیکن اس ملک کے اپنے شہریوں سے سرکاری اہلکار بھتہ وصول کرتے ہیں!؟ کیا پاکستان میں شیعوں کی حیثیت سکھوں اور ہندووں جتنی بھی نہیں  رہی۔؟ کیا یہ پاکستان کے شیعوں کو زبردستی مسلح کرنے اور پاکستان کو توڑنے کی سازش نہیں۔؟ ہم تمام انسانی حقوق کی تنظیموں، پاکستان میں موجود این جی اوز، میڈیا، ذمہ دار اور درد دل رکھنے والے اینکر حضرات سے درخواست کرتے ہیں کہ اس ملک کو بچانے کے لئے ہماری آواز کو میڈیا میں اٹھایا جائے، حکومتی ٹھیکیداروں، ملکی حالات اور عوام کی مشکلات سے غافل حکمرانوں  کو جھنجوڑا جائے۔ اس ملک میں اہلِ تشیع کو اسلحہ اٹھانے پر مجبور کرنے والے یقیناً سی آئی اے، را اور موساد کے ایجنٹ ہیں۔ اِن غداروں کو بے نقاب کرنا اور انکے خلاف قانونی کارروائی کیلئے تگ و دو کرنا، ہم سب کی دینی و ملی ذمہ داری ہے۔

حریر: ملک جرار عباس یزدانی

jarrar110@yahoo.com

منبع:اسلام ٹائمز

459625

ٹیگس: شیعہ ، زایرین ، تفتان
نظرات بینندگان
captcha