یوکرین روس سے آزاد ہوئی ریاست ہے، جو بڑی تیزی سے یورپ کے قریب ہو رہی ہے۔یوکرین کا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں کی مقامی آبادی ہی دو گروہوں میں بٹی ہوئی ہے اور ان کے درمیان شدید نوعیت کے اختلافات ہیں۔ روسی علاقوں سے بہت سے لوگوں نے یہاں کا رخ کیا اور یہیں کے ہو کر رہ گئے۔ کچھ مقامی لوگ بھی ایسے ہیں، جو روسی طرز زندگی کو ہی بہترین سمجھتے ہیں اور بڑی شدت سے یورپ سے نفرت کرتے ہیں، ان کی آبادی سترہ فیصد بنتی ہے۔ دونیسک اور لوہانسک کے لوگ کافی سالوں سے یوکرین سے لڑ رہے ہیں اور اب تک کی اطلاعات کے مطابق چودہ ہزار کے قریب لوگ اس تنازع میں اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ ان دونوں علاقوں کی اکثریت بلکہ غالب اکثریت روس کے ساتھ جانا چاہتی ہے۔ روس اور یوکرین کا تنازع کافی بار جنگ میں بدلنے کے خطرات پیدا ہوتے رہے ہیں۔ چند سال پہلے روس کے چھوڑے ایٹمی ہتھیاروں کے تنازع پر روس اور یوکرین میں شدید اختلافات ہوگئے تھے۔
ہوا کچھ یوں تھا کہ روس نے کچھ ایٹمی تنصبات یوکرین میں تعمیر کر رکھی تھیں، جو روس کے جانے کے باجود یہیں رہ گئی۔ روس انہیں اپنی سکیورٹی اور تنازع کی صورت میں یوکرین کی طرف سے بڑا خطرہ سمجھتا تھا۔ یوکرین کا خیال تھا کہ یہ ہتھیار کسی بھی روسی حملے کی صورت میں اس کا دفاع کریں گے۔ جب تنازع بڑھا تو امریکہ، یورپ، یوکرین اور روس میں مذاکرات ہوئے اور ایک معاہدے کے نتیجے میں کچھ گارنٹیز لے کر یہ ایٹمی ہتھیار روس کے حوالے کر دیئے گئے۔ یہ روس کی بڑی کامیابی تھی کہ یوکرین کو ایٹمی ہتھیاروں سے محروم کر دیا۔ امریکہ اور نیٹو ممالک نے بڑے پیمانے یوکرین کو مسلح کرنے کا عمل شروع کر رکھا ہے۔ روس یہ جانتا ہے کہ اگر وہ خاموشی سے یہ دیکھتا رہا تو بہت جلد یوکرین کی شکل میں اس کے بارڈر پر یورپ و امریکہ کا بہت بڑا دفاعی اڈا بن جائے گا۔
روس نے بڑی سمجھداری سے آہستہ آہستہ اقدامات کیے ہیں، اس نے پچھلے دو ماہ سے اپنی فوجوں کو یوکرین کے بارڈر پر لانا شروع کر دیا تھا۔ روس کو خدشہ تھا کہ اگر اس نے ابھی کچھ نہ کیا تو بہت جلد امریکی اور یورپی اسلحہ سے ڈونیسک اور لوہانسک کے علاقوں پر یوکرینی فوج قبضہ کر لے گی اور روس کا بیس کیمپ ہی ختم ہو جائے گا۔ امریکہ اور نیٹو نے بڑی تیزی سے اپنے اسلحہ کو پولینڈ، لیتھوانیا اور رومانیہ جیسی نزدیکی ریاستوں میں منتقل کرنا شروع کر دیا۔ میڈیا وار تو جاری ہے۔ یورپی میڈیا نے طبل جنگ بجا دیا کہ اب روسی میزائل، ٹینک اور جہاز یوکرین پر چڑھ دوڑیں گے۔ بین الاقوامی ورلڈ آرڈر کے مطابق اسلحہ کے استعمال اور پابندیاں لگانے کا حق صرف یورپ کو ہے، اس کے علاوہ جو مختلف سوچ و فکر کے مالک ممالک ہیں، وہ ایسا نہیں کرسکتے۔
روس یورپ سے جمہوریت کی زبان میں بات کر رہا ہے کہ دیکھو تم ڈونیسک اور لوہانسک میں ریفرنڈم کرا دو، یہ یوکرین کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے، جب اس تنازع کو ختم کریں اور ان کو الگ رہنے دیں۔ روس کہتا ہے کہ سب سے پہلے تو اس بات کی قانونی یقین دہانی دی جائے کہ نیٹو کو توسیع نہیں دی جائے گی اور یوکرین کو اس کا رکن نہیں بنایا جائے گا۔ روسی صدر پوتن نے کہا ہے کہ یورپ نے 1990ء میں یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ مشرق کی طرف نہیں پھیلے گا، مگر وہ اس پر قائم نہیں رہا۔ روس نے ڈونیسک پیپلز رپبلک اور لوہانسک پیپلز رپبلک کے نام سے مشرقی یوکرین کے ان علاقوں کو بطور آزاد ریاستیں قبول کرنے اور فوری طور پر فوجیں بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گتیریس نے روس کی جانب سے ان علاقوں کی آزادی تسلیم کرنے کو یوکرین کی سالمیت اور خود مختاری کے خلاف قرار دیا ہے، جبکہ مغرب کا کہنا ہے کہ یہ بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے۔ نیٹو کی طرف سے چار ہزار مزید فوجیوں کو رومانیہ، بلغاریہ، ہنگری اور سلواکیہ بھیجے جانے کا امکان ہے۔
روسی صدر نے کہا ہے کہ میں نے فوجی آپریشن کا فیصلہ کیا ہے، جو بھی ہمارے معاملات میں مداخلت کرے گا، اس سے بھی بڑھ کر جو ہمیں دھمکائے گا، لوگوں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ ہمارا ردعمل فوری ہوگا۔ ہم آپ کو ایسے نتائج کی طرف لے جائیں گے، جو آپ نے اپنی تاریخ میں کبھی نہیں دیکھے ہوں گے۔ اس کے ساتھ ہی روس نے اپنی حکمت عملی اور اپنے عزائم واضح کر دیئے ہیں۔ یوکرینی صدر نے مطالبہ کیا ہے کہ فوری طور پر اسے نیٹو کا ممبر بنایا جائے۔ اس کے جواب میں جرمنی اور دیگر یورپی ممالک نے واضح کیا ہے کہ اس کا دور دور تک کوئی امکان نہیں ہے۔ روس نے اپنا انتہائی اقدام کر دیا ہے، اب دیکھنا یہ ہوگا کہ یورپ کیا ردعمل دیتا ہے؟ ویسے تو جرمنی نے اعلان کیا تھا کہ جنگ کی صورت میں ہم یوکرین کو پانچ ہزار ہیلمٹ دیں گے۔
یورپ کے مجموعی ردعمل کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ روس کے خلاف مالی پابندیاں لگانا چاہتے ہیں اور اس میں بھی اپنے مفادات کو ملحوظ رکھ رہے ہیں، مثلاً جب یہ کہا گیا کہ روس کے بنکنگ سسٹم کو مغرب سے قطع کر دیں تو مغرب کی طرف سے کہا گیا کہ اس سے مغرب کا نقصان ہوگا، اس لیے اسے اختیار نہیں کیا جائے گا۔ امریکہ اور یورپ نے یوکرین کو روس کے مقابل لا کر کھڑا کیا ہے اور خود پیچھے ہٹ گئے ہیں۔ یہ امریکہ اور مغرب پر اعتماد کرنے اور اس پر پالیسی بنانے والوں کے لیے بھی سبق لینے کا مقام ہے کہ دوسروں کے بھروسے پر نہیں اچھلنا چاہیئے اور پرامن انداز میں آگے بڑھنا چاہیئے، تاکہ ملک و قوم بند گلی میں نہ پھنس جائیں۔جنگ جہاں بھی ہو، جس بھی وجہ سے ہو، اس میں انسانیت کو نقصان پہنچتا ہے۔
ڈاکٹر ندیم عباس