معاشرے کا شیرازہ بکھرنے کے عمل کو کیسے روکے

IQNA

قرآن کہتا ہے / 17

معاشرے کا شیرازہ بکھرنے کے عمل کو کیسے روکے

9:06 - October 20, 2022
خبر کا کوڈ: 3512922
قرآن دکھاتا ہے کہ فرد کا عمل برراہ راست معاشرے پر اثر ڈالتا ہے لہذا اصلاح معاشرہ صرف سخت قوانین سے ممکن نہیں بلکہ اکثریت کی اصلاح ہونی چاہیے۔

ایکنا نیوز- «اصلاح» و «فساد» دو متضاد چیزیں ہیں اور خدا کا قانون یہ ہے کہ اصلاح فساد پر غلبہ حاصل کرلے۔ ہر نیک عمل دیگر تمام حقایق سے  ہم آہنگ اور اثر انداز اور فاسد عمل خلاف فطرت وقانون عالم ہستی ہے، علامہ طباطبائی کی کتاب المیزان میں یہ درج شدہ ہے۔

تاہم گناہ و فساد کا کیا مطلب ہے اور ان میں کیا فرق ہے؟

گناه ایسا عمل ہے جو بندہ خدا کے حکم کے خلاف عمل کرتا ہے یا کسی امر جو لازم ہے اس پر عمل نہیں کرتا یا ترک کرتا ہے اور فساد ایسی حالت ہے جس سے معاشرے کے نارمل حالت کو تباہ کیا جاتا ہے، جس سے معاشرے کی آزادی، عدالت اور سکون برباد ہوتا ہے۔

اس بنیاد پر گناہ فرد کی تباہی اور رویہ اور فساد معاشرے کی تباہی شمار کی جاتی ہے جس میں برراہ راست رابطہ موجود ہے۔

 

ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيقَهُمْ بَعْضَ الَّذِي عَمِلُوا لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ؛ خشکی اور سمندر میں لوگوں کے برے اعمال کی وجہ سے، فساد و تباهی نمود ہوتی ہے تاکہ [خدا سزا] کے مزے کو چکھا سکے تاکہ وہ [گناه و طغیان] سے واپس رخ موڑ لے. (روم، ۴۱)

اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ گناہ و فساد میں برراہ راست رابطہ موجود ہے، گناہ اور قانون شکنی ایک زہریلے کھانے کی مانند ہے جو انسانی نظام صحت کو تباہ کرتا ہے۔ جیسے جھوٹ اعتماد کو ختم کرتا ہے اور امانت میں خیانت اجتماعی رابطے کو تباہ کرتی ہے اور ظلم دیگر مظالم کی بنیاد بنتا ہے وغیرہ ۔۔۔

 

اسلامی روایات میں تمام گناہوں کے خاص اثرات ہوتے ہیں جو ہمارے لیے پوشیدہ ہیں مثلا روایت میں کہا گیا ہے کہ قطع رحمی یعنی رشتہ داروں سے رابطہ منقطع کرنا عمر کو کم کرتا ہے یا یتیم کا مال کھانا قلب کو تاریک کرتا ہے، امام صادق(ع) فرماتے ہیں: «جو گناہوں کی وجہ سے دنیا سے چلے جاتے ہیں، ان سے زیادہ ہے جو اجل یا وقت مقررہ ختم ہونے پر جاتے ہیں». رسول گرامی فرماتے ہیں: «زنا کے چھ عقوبت ہیں؛ تین دنیا میں اور تین آخرت میں».

 

ایک اور حدیث رسول گرامی سے منقول ہے کہ: «میرے بعد جب معاشرے میں زنا کا عمل بڑھ جاتا ہے تو ناگہانی اموات میں اضافہ ہوگا، جب کم فروشی ہوگی تو خشک سالی آئے گی اور جب زکات ادا نہیں کریں گے تو ظلم و دشمنی میں ایک دوسرے کی معاونت کریں گے اور جب پیمان شکنی کی جایےگی تو دشمن ان پر مسلط ہوگا اور جب امر بالمعروف اور نہی از منکر ترک کریں گے اور نیکو کاروں کی پیروی نہیں کریں گے تو خدا برے افراد کو ان پر مسلط کرے گا۔ ».

 

یہ الہی سنت یا قانون ہے کہ اگر افراد معاشرہ اصلاح کی طرف نہیں جائیں گے تو جہان ہستی قدرتی طور پر انکو نابودی کی طرف لے جائے گی۔

علامه طباطبایی آیت قرآن کے رو سے تاکید کرتے ہیں که باطل کو نظام عالم میں دوام حاصل نہیں اور اصلاح کو غلبہ حاصل ہوگی: «واللّهُ لا یَهدِی القَومَ الظّلِمین؛ خدا ستم کاروں کو ہدایت نہیں کرتا»(سورہ مائده، 51).

نظرات بینندگان
captcha