قرآن کی طویل ترین آیت کا پیغام کیا ہے؟

IQNA

قرآن کہتا ہے/ 42

قرآن کی طویل ترین آیت کا پیغام کیا ہے؟

7:08 - December 26, 2022
خبر کا کوڈ: 3513446
سب سے بڑی آیت میں حقوق اور تجارتی معاملات بارے تاکید آئی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حقوق پر کسقدر اسلام کی گہری نظر ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَدَايَنْتُمْ بِدَيْنٍ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى فَاكْتُبُوهُ وَلْيَكْتُبْ بَيْنَكُمْ كَاتِبٌ بِالْعَدْلِ وَلَا يَأْبَ كَاتِبٌ أَنْ يَكْتُبَ كَمَا عَلَّمَهُ اللَّهُ فَلْيَكْتُبْ وَلْيُمْلِلِ الَّذِي عَلَيْهِ الْحَقُّ وَلْيَتَّقِ اللَّهَ رَبَّهُ وَلَا يَبْخَسْ مِنْهُ شَيْئًا فَإِنْ كَانَ الَّذِي عَلَيْهِ الْحَقُّ سَفِيهًا أَوْ ضَعِيفًا أَوْ لَا يَسْتَطِيعُ أَنْ يُمِلَّ هُوَ فَلْيُمْلِلْ وَلِيُّهُ بِالْعَدْلِ وَاسْتَشْهِدُوا شَهِيدَيْنِ مِنْ رِجَالِكُمْ فَإِنْ لَمْ يَكُونَا رَجُلَيْنِ فَرَجُلٌ وَامْرَأَتَانِ مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَاءِ أَنْ تَضِلَّ إِحْدَاهُمَا فَتُذَكِّرَ إِحْدَاهُمَا الْأُخْرَى وَلَا يَأْبَ الشُّهَدَاءُ إِذَا مَا دُعُوا وَلَا تَسْأَمُوا أَنْ تَكْتُبُوهُ صَغِيرًا أَوْ كَبِيرًا إِلَى أَجَلِهِ ذَلِكُمْ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ وَأَقْوَمُ لِلشَّهَادَةِ وَأَدْنَى أَلَّا تَرْتَابُوا إِلَّا أَنْ تَكُونَ تِجَارَةً حَاضِرَةً تُدِيرُونَهَا بَيْنَكُمْ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَلَّا تَكْتُبُوهَا وَأَشْهِدُوا إِذَا تَبَايَعْتُمْ وَلَا يُضَارَّ كَاتِبٌ وَلَا شَهِيدٌ وَإِنْ تَفْعَلُوا فَإِنَّهُ فُسُوقٌ بِكُمْ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَيُعَلِّمُكُمُ اللَّهُ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ؛

 

ترجمہ: اے ایمان والو! جب تم کسی وقتِ مقرر تک آپس میں ادھار کا معاملہ کرو تو اسے لکھ لیا کرو، اور چاہیے کہ تمہارے درمیان لکھنے والا انصاف سے لکھے، اور لکھنے والا لکھنے سے انکار نہ کرے جیسا کہ اس کو اللہ نے سکھایا ہے، سو اسے چاہیے کہ لکھ دے، اور وہ شخص بتلاتا جائے کہ جس پر قرض ہے اور اللہ سے ڈرے جو اس کا رب ہے اور اس میں کچھ کم کر کے نہ لکھائے، پھر اگر وہ شخص کہ جس پر قرض ہے بے وقوف ہے یا کمزور ہے یا وہ بتلا نہیں سکتا تو اس کا کارکن ٹھیک طور پر لکھوا دے، اور اپنے مردوں میں سے دو گواہ کر لیا کرو، پھر اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دوعورتیں ان لوگوں میں سے جنہیں تم گواہو ں میں سے پسند کرتے ہو تاکہ اگر ایک ان میں سے بھول جائے تو دوسری اسے یاد دلا دے، اور جب گواہوں کو بلایا جائے تو انکار نہ کریں، اور معاملہ چھوٹا ہو یا بڑا اس کی معیاد تک لکھنے میں سستی نہ کرو، یہ لکھ لینا اللہ کے نزدیک انصاف کو زیادہ قائم رکھنے والا ہے اور شہادت کا زیادہ درست رکھنے والا ہے اور زیادہ قریب ہے اس بات کے کہ تم کسی شبہ میں نہ پڑو، مگر یہ کہ (جب) تجارت ہاتھوں ہاتھ ہو جسے آپس میں لیتے دیتے ہو پھر تم پر کوئی گناہ نہیں کہ اسے نہ لکھو، اور جب آپس میں سودا کرو تو گواہ بنا لو، اور لکھنے والے اور گواہ بنانے والے کو تکلیف نہ دی جائے، اور اگر تم نے تکلیف دی تو تمہیں گناہ ہوگا، اور اللہ سے ڈرو، اور اللہ تمہیں سکھاتا ہے، اور اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے». (بقره، ۲۸۲)

یہ قرآن کی سب سے بڑی آیت شمار کی جاتی ہے جسمیں حقوق اور معاملات میں سند و گواہ بنانے پر تاکید کی جاتی ہے جیسا کہ واضح ہے، جزيرة العرب میں جہاں بقول مورخین کے 17 سے زیادہ پڑھے لکھے افراد نہ تھے اس میں اس قدر لکھنے پر تاکید اسلام کا علم اور حقوق پر توجہ کی دلیل ہے۔

اس آیت میں باریک بینی اور جامعیت کی بات دیکھی جاسکتی ہے کہ اس دور جاہلیت میں کسقدر باریک بینی سے حقوق کی رعایت پر تاکید کی جاتی ہے۔

اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی معاشرہ میں ایک دوسرے کے حقوق کی رعایت کسقدر اہم ہے جس کے لیے گواہ اور کاتب کے ہونے پر تاکید آئی ہے۔

 

تفسیر نور کی تفسیر اور پیغامات اس آیت کے رو سے

1- قرض دینے کی مدت واضح ہونا چاہیے.

2- اعتماد و حسن ظن کے لیے اور دونوں طرف کے مطمین ہونے اور فراموش نہ کرنے کے لیے قرض کا لکھنا ضروری ہے۔

3- سند بنانے کے تین فایدے ہیں:

الف: انصاف برقرار رہنے کی ضمانت. «أَقْسَطُ»

ب: گواہ آسانی سے گواہی دیں سکتے ہیں. «أَقْوَمُ»

ج: معاشرے میں سوء ظن یا بدگمانی روکنے کا باعث ہے. «أَدْنى‌ أَلَّا تَرْتابُوا»

متعلق خبر
نظرات بینندگان
captcha