رہبروں کا عدل؛ اسلام کی اجتماعی تعلیمات کا سرچشمہ

IQNA

قرآن کہتا ہے/ 41

رہبروں کا عدل؛ اسلام کی اجتماعی تعلیمات کا سرچشمہ

7:54 - December 19, 2022
خبر کا کوڈ: 3513384
امام کے لیے عدالت لازمی ہے اور عدل کے بغیر امام کا درست تصور ممکن نہیں۔

ایکنا نیوز- اسلامی ثقافت یا کلچر میں «عدل» کا مطلب دوسروں کے حقوق کی رعایت جو لفظ «ظلم» اور «تجاوز کرنے» کے مقابل استعمال ہوتا ہے ، تفصیلی معنی میں کہا جاتا ہے «ہر چیز کو اس کی جگہ پر رکھنا اور ہر کام کو شایستہ ترین انداز میں انجام دینا». عدل کو اس قدر اہمیت دی جاتی ہے کہ اس کو ایک مکتب دین کے اصول میں شمار کرتا ہے۔

انسان ایک مشترکہ مفاد یا منافع کے لیے یکجا ہوتے ہیں اور ایک معاشرہ تشکیل پاتا ہے تاہم ایک سالم اجتماع یا معاشرے کے لیے برابر کے تعلقات اور عادلانہ نظام کی ضرورت ہوتی ہے اور عدالت کا ہونا بنیادی ترین ضرورت ہے جس کی بنیاد پر معاشرہ پائیدار رہ سکتا ہے، آیت قرآن کہتی ہے:

وَإِذِ ابْتَلَى إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا قَالَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي قَالَ لَا يَنَالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ؛ (یاد کرو) جب رب العزت نے ابراهيم نے مختلف انداز میں آزمایا اور وہ کامیاب ہوئے تو اللہ تعالی کا ارشاد ہوا: میں نے تم کو امام اور پیشوا قرار دیا، ابراهيم نے کہا: میر نسل میں سے  (بھی امام قرار دے) تو ارشاد ہوا: میرا وعدہ ستم کاروں تک نہیں پہنچے گا (تمھارے صرف اہل افراد کو یہ مقامل ملے گا)(بقره، ۱۲۴).

دو نکات اس میں پوشیدہ ہے پہلی چیز یہ کہ ابراہیم کو «امامت» دی گیی اور دوسرا نکتہ یہ کہ «امامت» و «عدالت»(ظلم سے دوری) میں فاصلہ یقینی ہے. پہلے کہا گیا کہ «امامت» کا مطلب کیا ہے اور اس کا پیشوائی اور«نبوت» سے کیا رابطہ ہے. اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امام کی خصوصیت یا ذمہ داری کیا ہے؟

اس آیت کے دوسرے حصے میں امام کے لیے ایک خاصیت بیان کی گیی ہے کہ امام کا صرف یہ کمال نہیں بلکہ یہ کہہ سکتے ہیں اس میں اہم ترین نکتہ پوشیدہ ہے۔

حضرت ابراهيم عليه السلام اکیلا رسول ہے کہ یہودی، عیسائی اور مشرکین سب انکو تسلیم کرتے ہیں اس آیت میں ابراهيم عليه السلام کی تعریف کی گیی ہے یعنی جو انکو امام مانتے ہیں انکو ظلم و شرک سے دور رہنا ہوگا.

اس اصول کو شیعہ بنیادی ایمان کا حصہ سمجھتا ہے یعنی جو امام ہوگا اسکا ہر ظلم و گناہ سے دوری لازمی ہے.

تفسیر نمونه کے مصنف کا کہنا ہے: اس آیت میں امام کو لفظ «عَهْدِي» سے یاد کیا گیا ہے جو آیت 40 سوره بقره کے ساتھ دیکھا جایے تو الہی سنت یا قانون کو بیان کرتا ہے. «أَوْفُوا بِعَهْدِي أُوفِ بِعَهْدِكُمْ؛ میرے پیمان یا عہد پر عمل کرو تاکہ تمھارے پیمان پر عمل کروں». يعنى اگر تم میرے امام سے وفادار رہے اور اس کی پیروی کی تو میں بھی تمھاری نصرت کے قول پر وفادار رہونگا، اس میں امام اور عوام کے رابطے کو واضح طور پر بیان کیا گیا ہے۔

 

تفسیر نور میں آیت کے دوسرے حصے کے پیغامات:

1- امامت کا سرچشمہ لياقت ہے نہ کہ وراثت اور امتحان اور شایستگی کی بنیاد پر. «فَأَتَمَّهُنَّ»

2- امامت، انسانوں سے خدا کا عھد ہے. «عَهْدِي»

3- معاشرے میں رهبرى کی بنیادی شرط عدالت ہے. جس میں زرہ برابر شرک و ظلم کا شائبہ ہوگا وہ لايق امامت نہیں. «لا يَنالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ»

متعلق خبر
نظرات بینندگان
captcha