قرآن مقدس کتاب ہے جو 23 سال کی مدت میں حضرت محمد (ص) پر اتری۔ محتوا اور مضمون اور الفاظ، کے حوالے سے ارادہ خدا سے وابستہ ہے اور کسی کو حتی رسول گرامی (ص) کو اس میں تبدیلی کا حق نہ تھا. جیسے کہ آیات 44 تا 46 سوره حاقه میں پڑھتے ہیں: «وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيلِ لَأَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ» اور اگر [رسول اللہ] ایک بھی حصہ اپنی جانب سے ہم سے نسبت دیتا تو ہم شدید پکڑ میں لاتے اور اس کے دل کی شہ رگ کو کاٹ دیتے».
قرآن مجید کی کچھ خاص خاصیت واضح ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آیات خود خدا کی جانب سے ہے اور اس مسئلے میں شک کی گنجایش نہیں:
تاہم نزول قرآن کس بارے میں ہے؟ ان نکات پر توجہ سے ہمیں سمجھنے میں مدد ملتی ہے.
جب لفظ «نزول» کی بات کرتے ہیں تو دماغ میں آتا ہے کہ ایک بلند مقام سے کوئی چیز خارج ہوتی ہے اور نیچے کی سمت آتی ہے، قرآن درست ہے کہ ایک ایک عالم بالا سے اتر کر دنیا میں آیا ہے تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ خدا کا عالم بالا میں کوئی مکان ہے بلکہ یہ خدا کی عظمت کی طرف اشارہ ہے۔
ایک اور نکتہ «نزول» بارے یہ ہے کہ کیا قرآن بھی دیگر نعمتوں کی طرح آسمان سے اترا ہے؟ کیا بارش بھی قرآن کی طرح ہے؟ جواب نفی میں ہے ، نزول بارش نزول قرآن کی طرح نہیں اور اس میں دو لفظ (لٹکا ہوا) اور (ڈالنا) آیا ہے.
خدا بارش کو زمین پر ڈال دیتا ہے جو آسمان سے ڈالا گیا اور زمین پر پے اور اب آسمان پر نہیں، لیکن قرآن بارے کہا جاتا ہے کہ خدا نے قرآن کو " ڈالا" نہیں بلکہ " لٹکایا" یعنی گرچہ زمین پر اتارا گیا اور مسلمانوں کے پاس ہے تاہم اس کتاب کا رابطہ خدا بزرگ و برتر اور آسمان سے کٹا نہیں ہے۔/