ایکنا- خدا کے رسولوں نے تربیت کے لیے مختلف روش کا سہارا لیا ہے اور حضرت ابراهیم (ع) نے بھی لوگوں کی تربیت کے لیے بہترین کاوشیں کی ہیں۔
تربیتی روش میں سے ایک اہم روش مخاطب کو سوال کرنا ہے جو کم وقت میں بہتر انداز میں مخاطب کو قانع کرنے کا باعث بن سکتا ہے. حضرت ابراهیم (ع) نے کفار اور مشرکین کی تربیت کے لیے اس انداز کا سہارا لیا ہے۔
انہوں نے کوشش کی کہ مخاطبین کو قانع کریں کہ خدا میں دو خاصیت کا ہونا ضروری ہے تاکہ اس کو خدا کا نام دیا جاسکے ۔ 1.زنده ہونا، 2. انسان کی ضرورت سے آگاہی۔
حضرت ابراهیم کی قوم بت پرست تھی اور خود بت بنا کر اسکی پرستش کرتے. حضرت ابراهیم کی قوم جب ایک بار کسی پروگرام میں شرکت کے لیے باہر گیی تھی اس وقت وہ بت خانے میں جاکر تمام بتوں کو توڑ دیتے ہیں اور بڑی بت کے کاندھے پر کلہاڑی رکھ دیتے ہیں. لوگ جب واپس شہر میں آئے تو بتوں کو دیکھ کر سمجھ گیے کہ یہ ابراہیم کا کام ہے۔
ابراهیم کو بلا وہ لوگ سوال کرتے ہیں کہ کیا تم نے یہ کام انجام دیا ہے؟.
ابراهیم نے حالات کو مناسب اور بروقت جانا اور سوال داغ دیا کہ کیا: «قَالَ بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ هَذَا فَسْئلُوهُمْ إِن كَانُواْ يَنطِقُون؛ : «شاید اس کو بڑے بت نے انجام دیا ہے! ان سے پوچھو اگر جواب دے سکتی ہے!» (انبیاء:63).
ابراهیم نے اس سوال سے بڑے سوالات خلق کردیے جیسے:
ابراهیم(ع) نے اس اقدام سے ان کے عقیدے پر کاری ضرب لگائی اور وہ سمجھ گیے کہ بت سے کچھ نہیں ہوسکتا لیکن ضد بازی کی وجہ سے انہوں نے ایمان نہ لایا اور خیانت پر ڈٹے رہیں۔/