ایکنا نیوز- الھی نمایندوں کی ایک خاصیت دوٹوک اور شفاف گفتگو ہے جب کہ دوسروں رہنماوں میں یہ کم دکھائی دیتی ہے اور وہ لوگ غیرشفاف انداز رکھتے ہیں اور دوٹوک گفتگو کو اپنے مقصد میں رکاوٹ سمجھتے ہیں۔
تاہم الھی نمایندے شفاف اور دوٹوک انداز کو اصول قرار دیتے ہیں اور اس حوالے سے کسی سے نہ خوف کھاتے ہیں نہ مصلحت سمجھتے ہیں۔
تربیت کے حوالے سے یہ ایک موثر انداز ہے کیونکہ مغرور اور متکبر لوگ جو ایک غلطی کو مسلسل دہراتے ہیں وہ نرمی اور خوش اخلاقی سے غلطی کا احساس نہیں کرتے لہذا الھی نمایندے انکے مقابل واضح انداز میں گفتگو کرتے ہیں۔
رب العزت انکے بارے میں فرماتے ہیں:
«أَلَّذِینَ یُبَلِّغُونَ رِسالاتِ اللهِ وَ یَخْشَوْنَهُ وَ لایَخْشَوْنَ أَحَداً إِلَّا اللهَ ؛ (انبیاء) گذشتہ لوگ جو کار رسالت انجام دیتے تھے (تنها) سے اس سے ڈرتے اور کسی کا خوف نہ رکھتے؛ و اور یہی کافی ہے کہ خدا انکو اجر دینے والا ہے! »(احزاب: 39)
حضرت موسی (ع) جو الھی نمایندہ تھا اسی انداز سے استفادہ کرتے تھے:
«وَ قالَ مُوسى یا فِرْعَوْنُ إِنِّی رَسُولٌ مِنْ رَبِّ الْعالَمینَ حَقیقٌ عَلى أَنْ لا أَقُولَ عَلَى اللهِ إِلَّا الْحَقَّ قَدْ جِئْتُکُمْ بِبَیِّنَةٍ مِنْ رَبِّکُمْ فَأَرْسِلْ مَعِیَ بَنی إِسْرائیلَ ؛ اور موسی نے کہا:اے فرعون! میں کائنات کے رب کی جانب سے آیا ہوں. حق یہ ہے کہ خدا کے علاوہ حق نہ کہے. میں واض دلایل لایا ہوں؛ پس بنی اسرائیل کو میرے ساتھ روانہ کرو»(اعرااف: 104/105)
یہ جو حضرت موسی )ع( کہتا ے کہ اے فرعون میں رب کی طرف سے بھیجا گیا ہوں حق و باطل میں پہلا ٹکراو ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ فرعون کو پہلی بار کسی نے اس انداز سے خطاب کیا تھا کہ اے فرعون، جو بغیر کسی چاپلوسی کے کہا گیا کیونکہ اس سے پہلے لوگ انکو اے مالک، پروردگار جیسے انداز سے خطاب کرتے، حققیت میں
حضرت موسی )ع( ، نے اس انداز سے فرعون کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی تھی . یہ جملہ ایک طرح سے فرعون کے ساتھ اعلان جنگ تھا . یہ انداز یہ ثابت کرتا تھا کہ فرعون اور ان جیسے لوگ خود ساختہ مالک بنے تھے اور انکا کوئی مقام نہ تھا۔
حضرت موسی نے ان چیزوں کے باوجود فرعون کو خاص انداز سے خطاب نہ کیا اور بغیر کسی خوف کے دوٹوک انداز میں مخاطب کیا۔/