فلسطین پر کس نے یہودیوں کو لاکر بسایا ؟

IQNA

درست عبرت؛

فلسطین پر کس نے یہودیوں کو لاکر بسایا ؟

4:47 - October 24, 2023
خبر کا کوڈ: 3515164
ایکنا: فلسطینیوں نے زمین فروخت کی یا اس پر قبضہ جمایا گیا، اس سرزمین پر اصل حق کس کا ہے، فلسطین کی تاریخ مظلومیت سے لبریز ہے۔

انقلا ب فر انس کے بعد کئی قو موں نے خود مختا ری ،خود اعتبا ری اور آزادی کا نعرہ لگا یا جنمیں سے ایک یہو دی قو م تھی ا س انقلاب کے بعد دنیا بھرکے یہو دیو ں کو یہ خیا ل آیا کہ ہمیں بھی متحد ہو کر ایک ملک حا صل کر لینا چا ہیے ۔انیسو یں صدی کے وسط میں انگلستا ن نے یو رپ کے مفا دات کی خا طر دنیا بھر کے یہو دیوں کو ایک مقا م پر جگہ دینے اور انھیں مقد س مکا ن (بیت المقدس) کی جا نب ہجرت کی تر غیب دینے کے لئے فلسطین میں مقیم دس ہزار یہو دیوں کے لئے علحیدہ وطن کی کو ششیں شر وع کی اور اس کا م کیلئے انگلستا ن کی جا نب سے ایک اعلیٰ نما ئندہ مو نٹفری مسلسل فلسطین کا دور ہ کر تے رہے۔

              ۱۸۸۱ ء میں یہودیوں کی ایک تنظیم وجو د میں آئی جس نے یہو دیوں کو ایک جگہ متحد ہو نے اور انھیں ایک علحیدہ مملکت حاصل کر نے کا نعرہ دیا اور اس سلسلے میں یہو دی مفکرین اور دا نشو روں نے مختلف مقا لا ت اور تقا ریر کے ذریعے سے بھر پور کر دا ر ادا کیا۔

              ۱۸۸۲ ء میں یہو دیوں کے طلبا ء کی ایک قدا مت پسندتنظیم وجو د میں آئی جس نے ایک یہودی را ئٹر کی کتاب جسکا نام ،خو د مختاری، تھا اس کتاب کو انہوں نے مقدس کتاب قرار دیا ۔

              ۱۸۹۵ ء میں یہو دی حکو مت کے نام سے ہڈسل نے ایک کتاب لکھی جسکو صیہو نزم کا بانی بھی کہا جا تا ہے ۔ہڈسل کے مطابق تمام یہو دی ایک ہی نسل سے تعلق رکھتے ہیں اور خد اکے حکم اور حضرت ابر اھیم ؑ کے فر ما ن پر انہوں نے کنعان کی طر ف ہجرت کیں اس طر ح ہڈسل نے یہو دی نسل یا نژا د کا مسئلہ پیش کیا اور یہو دی تحریک مذہبی سے ایک قومی اور سیا سی تحریک میں بدل گئی۔

              ۱۸۹۷ ء میں سو ئزر لینڈ کے شہر بال میں، بال کا نفر نس، کے نا م سے ایک کا نفر نس منعقد ہو ئی جس میں یہو دیوں کی طرف سے تین اہم موضو عات کا اعلا ن ہوا ۔

۱:۔ تمام یہودی جہاں کہیں ہو ایک ہی قوم اور نسل سے متعلق ہیں۔          

۲:۔یہو دی قو م ہمیشہ مظلو میت سے دو چاررہی ہے۔ 

۳:۔ یہودی نسل تمام نسلو ں سے اعلیٰ و برتر ہے اور کسی دو سری نسل سے اسکی برابری نہیں کی جاسکتی۔

              لہذ ا ان مسائل کی رو شنی میں ہم اعلان کر تے ہیں کہ :

۱:۔ یہودی قو م کا کسی دوسری نسل سے تعلق نہیں اور اس قو م میں کو ئی مخلو ط یاشامل نہیں ہو سکتا ۔        

۲:۔ ہمیں معنو یا ت اور روحا نیت سے کو ئی سر وکا ر نہیں اور صر ف ایک علحیدہ مملکت کے قیا م پر ہمیں تو جہ دینے کی ضرورت ہیں۔                           

۳:۔ دنیا کو ہمیں ایک علحٰید ہ سر زمین دینی ہوگی۔

              تعجب کی با ت تو یہ ہے کہ با ل کا نفرنس کے وقت جب یہو دیوں کے پا س کچھ بھی نہ تھا انہو ں نے دو نکا تی ایجنڈے کا اعلان کیا جسمیں کہا گیا کہ

۱:۔پوری دنیا سے غیر یہو دی حکو متو ں کا خاتمہ ہو نا چاہیئے ۔                        

۲:۔فوجی ،اقتصا دی، سیا سی ،اجتما عی اور ہر حو الے سے دنیا پر ایک مضبو ط یہو دی حکو مت کا قیام وجود میں آ نا چا ہیئے ۔

              اس کے بعد یہودیوں نے انتہائی منظم طر یقے سے وسیع پیما نے پر کا م شر و ع کیااورسرفہرست پروگر امو ں میں مختلف یہو دی تا جروں کوفلسطین میں لے جا نا ۔ کا شت کاروں کو وہاں زمین دلو انا ،ا ن سب میں قو می جذبہ بید ار کر انا ۔ ان سب میں ہم آہنگی پید اکرا نا اور دنیا کو ایک علحیدہ یہو دی مملکت کو تسلیم کروا نے پر آما دہ کرا نا قا بل ذکر ہیں۔

              با ل کا نفر نس کے بعد ہڈسل نے سلطنت عثمانیہ سے کہا کہ ہم تمہا رے تمام قر ضے یو رپ کو ادا کریں گے بشر طیکہ تم ہمیں آزادانہ طو ر پر فلسطین میں جانے دو ۔اگر چہ سلطنت عثما نیہ نے رسماً اعلا ن نہیں کیا لیکن بہر حا ل انہوں نے اسکے بعد یہو دیوں کی ہجرت کو دیدہ دا نستہ نظر انداز کر دیا ۔

              بال کا نفر نس (۱۸۹۷ ء)کے و قت ہڈسل نے ایک عجیب جملہ کہا جسکا خلا صہ یہ ہے کہ ،میں نے اس وقت ایک یہو دی حکومت کی بنیا د رکھ دی ہے اب دنیا بھر کے لو گ مجھ پر ہنس رہے ہیں اور شاید ۵ سال بعد بھی ہنسے لیکن ۵۰ سال بعد دنیا اسکی عملی شکل دیکھے گی ۔

              قا بل ذکر ہے کہ اسی زما نے میں یہو دی آبا د ی فلسطین میں کل آبا دی کا با رہوا ں فیصد شما ر ہوتاتھا ۔

              اب یہا ں توجہ فرما ئیے کہ یہو دی قوم اپنے مظا لم کی راہ ہموار کر نے کیلئے کیا سا زشیں کر تی ہے ۔دوسری جنگ عظیم میں مرنے والو ں کی تعداد اند ازتا ً ۴۲ لا کھ تھی اور یہو دیوں کا دعو یٰ ہے کہ اس تعداد میں۶ لا کھ یہو دی شامل ہیں (حا لا نکہ تا ریخی حقائق کے مطا بق یہو دی ہلاک شد ہ گا ن کی تعداد صر ف ۶۰ ہزار ہے )۔ یہو دی ہلا ک شد ہ گان کو مختلف کیمپوں میں جلا یا جا تا تھا جبکہ یہو دیو ں کا کہنا ہے کہ نہیں ان یہو دیوں کو زند ہ حا لت میں جلا ئے گئے ہیں اور اپنے مظالم کی راہ ہموا ر کر نے کیلئے پوری دنیا کی میڈیا پر قا بض یہو دی ۵۶ سالوں سے شور مچا رہے ہیں کہ ۶لا کھ یہو دیوں کوزند ہ جلا ئے گئے ہیں ۔

              ایران کے ایک سابق صدر نے ہولوکاسٹ کی حقیقت پر جب یہ سوال کیا کہ یہ ایک افسانہ ہے اور اگر اس میں تھوڑی حقیقت بھی موجود ہے تو یورپ اور مغرب اگر اس مسئلے میں ذمہ دار ہے لہٰذا اسرائیل انہیں کے ساتھ اپنا معاملہ نمٹائے ، فلسطینی عوام کو کس جرم کی بناء پر تشدد کا نشانہ بنارہاہے تو یہودی لابی نے میڈیا کے ذریعے دنیا بھر میں اس قدر شور مچایا کہ گویا ایرانی صدر نے کوئی خدا کی ذات کا انکار کیا ہو اور تعجب کی بات یہی ہے کہ اگر کوئی اسرائیل میں خدا اور انبیاء ؑ کی ذات پر اعتراض کرے تو کوئی بڑا جرم حساب نہیں ہوتا لیکن ہولوکاسٹ پر معمولی اعتراض بھی بہت بڑا جرم شمار کیاجاتاہے ۔

              ۱۹۱۴ ء کے او اخر میں و ائزمین یا وا ئس مین ،ہڈسل کا جا نشین بنا اور انہوں نے اعلا ن کیا کہ آج ہم کہہ سکتے ہیں کہ اگر برطانیہ ہما ری مدد کر ے تو ہم ۳۰ سال کے اندرایک ملین یہو دیوں کو فلسطین میں لے جا سکتے ہیں۔

              بر طانیہ ہی کی سر پر ستی اور حما یت کے نتیجے میں ۱۹۱۷ ء کو بر طا نوی وزیر خا رجہ با ل فور کے نا م پر معا ہدہ با ل فور کا اعلان ہوا اور اس کے نتیجے میں یہو دیو ں نے بر طا نیہ کو ایٹمی ما دے کی فر اہمی کے بد لے ان کی بین الا اقوا می حما یت کا مطا لبہ کیا اور اس کے بعد برطانیہ کے وزیر اعظم چر چل نے یہ اعلان کیا کہ میں خو د سو فیصد یہو دی ہو ں اور اسرا ئیل کی کھلم کھلا حمایت کا اعلا ن کرتا ہو ں ۔

              جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے کہ برطانیہ کی سر پر ستی کے آغا ز میں فلسطین کی کل آبا دی کا با رہواں حصہ یہو دی تھا اور یہ ۵.۲ فیصد فلسطینی علا قو ں پر قا بض تھے جبکہ ۱۹۴۷ ء میں انکی آبا دی ایک تہا ئی اور ۶ فیصد علا قو ں پر قا بض ہو ئے تھے۔

              اور پھر یہاں استعما ری طا قتوں مخصوصا ً (برطانیہ )کا معجزہ دیکھئے کہ ۱۹۴۷ ء ہی میں جب اقوا م متحدہ کے ذر یعے اسرا ئیل کا باقاعدہ اعلا ن ہو ا تو انہو ں نے حا تم طائی کی سخا وت کو بھی ما ت دیتے ہو ئے ۵۶ فیصد علا قے کو یہو دیوں کے سپر د کر دیا اور صر ف ۴۲ فیصد عر بو ں کی ملکیت میں رکھ دی جبکہ ۲ فیصد علا قے کو بین الا قو ا می فو ج کی نگر انی کے لئے خالی رکھ دیا ۔

              ۱۸ ۱۹ ء میں وائز مین نے فلسطین کا دورہ کیا اور وہاں کی انتطا میہ میں شمو لیت کی در خو است کی ۔اس زمانے میں پہلی جنگ عظیم ہو چکی تھی اور فلسطین سلطنت عثما نیہ کے قبضے سے نکل چکا تھا اور صلح پیرس کے نام سے ایک معا ہدے کا اعلا ن ہوا جسمیں امیر فیصل اور وا ئزمین نے مشتر کہ طو رپر ایک نکتے کا اعلا ن کیاکہ یہو دی بیشک فلسطین میں چلے جائے البتہ عر بوں کی زیر نگر انی (البتہ تجربہ شدہ با ت ہے کہ یہو دی ہمیشہ ان قو ا نین پر عمل کرتے جو انکے مفا د میں ہو تے اور جو قا نو ن انکے خلا ف ہو تا کبھی بھی عمل نہ کرتے۔)

              ۱۹۲۰ ء میں سموئیل نا می یہو دی کو انگلستان کی جا نب سے فلسطینی نما ئند ہ تسلیم کیاگیا اور قدرتی طور پر اس نے بھر پور اسرائیلی حما یت سے دریغ نہیں کیا (حا لا نکہ یہ خو د فر یقین میں ایک فر یق تھا) اسکے علا وہ سا زش کے تحت امیگریشن کا شعبہ یہو دی وزیر کے سپرد کر دیا گیا ۔ جس نے بیک و قت دو کا م کیا ۔

۱:۔ مختلف فلسطینی علا قو ں سے بڑی تعداد میں مسلما نوں کو نکا ل دیا ۔

۲:۔ جو بھی یہودی فلسطین میں آتا فوراً انھیں نیشنلٹی جا ری کر تا ۔ اور قابل غو ر ہے کہ ۳۵ سال کے عر صے میں فلسطین میں آنے والے یہو دیو ں کی تعداد ۲۶ ہزار ہے جب کہ اسی یہودی وزیر کے چا ر سالہ دور میں آبا د ہو نے وا لے یہودیوں کی تعداد ۲۶ ہزار ہے ۔

              عجیب نکتہ یہا ں ہے کہ انہوں نے ان حالا ت میں جو نعر ہ لگا یا وہ یہ تھا کہ، انسان بغیر سر زمین اور سر زمین بغیر انسان،یعنی فلسطینی عو ام کو سر زمین کی ضرورت نہیں اور یہودی عوا م بغیر سر زمین کے انسان ہے جبکہ فلسطینی سر زمین بغیر انسان کی سر زمین ہے۔

              ۱۹۲۰ ء میں اتحاد ی طا قتوں نے رسمی طو ر پر فلسطین کو بر طا نیہ کے زیر تسلط قرار دیا اور اس طر ح یہ عر بوں کے قبضے سے نکل گیا اور اس زمانے میں جب کہ اسر ائیل بنا بھی نہیں تھا ۔یہو دیوں نے فلسطین میں ایک صندو ق بنا یا تھا جسمیں تمام یہو دی ،حکو مت کو ٹیکس دینے کی جگہ اس صندوق میں یہودی امداد کے لئے چندہ جمع کرتے۔

              انگلستان نے فلسطین کی سر پر ستی کے حو الے سے دو شرا ئط رکھا ۔

۱:۔ یہو دیوں کی حکو مت اور مہا جرت کو آسان بنانا ۔             

۲:۔عر بی زبا ن کو فلسطین سے ختم کر انا ۔

              اور جیسا کہ بیا ن ہو ا کہ یہو دیوں کی پا لیسی تھی کہ جو بھی فلسطینی ملک سے با ہر جاتا انھیں دو سر ے مما لک کی نیشنلٹی دی جاتی اور جو یہو دی فلسطین میں آجا تا تویا حتیٰ ان یہودیو ں کو جو کبھی بھی فلسطین آ ئے ہی نہیں تھے انھیں بھی نیشنیلٹی دی جا تی اور کسی طر ح سے بھی ملک سے باہر گئے فلسطینوں کو دوبا رہ فلسطین میں آنے کا مو قع نہیں دیا جاتا ۔اور اس مسئلے پرحتیٰ بعض یہو دی دا نشوروں نے بھی اعتراض کیاتھا کہ جو یہو دی فلسطین میں آ ئے ہی نہیں ہے انھیں کیو ں نیشنیلٹی دی جا رہی ہے ۔

              ۱۹۱۷تا ۴۷ ۱۹ میں انگلستان فلسطین پر قابض تھے ا ور انہوں نے زبر دستی ۶ % فلسطینی علا قو ں کو یہو دیوں کی ملکیت میں دے دی حالا نکہ اس ۶ فیصد علا قو ں میں سے صرف ۲ فیصد خر یدی گئی تھی جسکے بعد فلسطینی علما ء نے فتو یٰ دیا کہ فلسطینی آئندہ زمین بیچنے سے اجتنا ب کریں اور الغر ض ملا حظہ کر ئے کہ جب اقو ام متحدہ نے اسر ائیلی مملکت کی تشکیل کا اعلا ن کیا تو اسرا ئیل کو ۵۷ فیصد علاقوں کی ملکیت دی گئی اور ستم با لا ستم یہ کہ اس وقت تک بھی یہو دی آبا دی تمام تر سا زشو ں کے با وجو د ایک تہائی تھی ۔ کیونکہ کل ۲۱ لا کھ پچا س ہزار کی آبا دی میں یہو دیوں کی تعداد سات لا کھ تھی اور ان سا ت لاکھ آبا دی میں مقامی یہو دی کی تعداد صر ف ۲۵ ہزار تھی۔

               ۲۹ نو مبر ۱۹۴۷ ء کو رسماً اسر ائیلی مملکت کا اعلان ہوا اور صرف چھ مہینے میں یعنی ۱۵ مئی ۱۹۴۸ ء کو بر طا نیہ نے انتہا ئی وفادار ی کا ثبو ت دیتے ہو ئے یہو دیوں کو دیئے گئے علا قو ں کو اسر ائیل کے لئے خالی کرایا اور یہو دی بستیاں آبا د ہو یئں جبکہ دو سری طر ف وہی اپنی فطر ت کے مطابق فلسطینی علا قو ں پر تسلط بر قرار رکھااور عر بو ں کو اسی مسائل میں الجھائے رکھا ۔

یہو دی ذہنیت کی خبا ثتیں :۔

              اسرائیل کے قیا م سے تیس سال پہلے ہی جر منی ،اٹلی اور مشر قی یو رپ و غیرہ میں یہو دی مختلف دہشت گر د گر و پس تیار کر تے رہے۔ جیسے آگا نہ ،ایر گون وغیرہ کی تنظیمیں جس کو اسر ائیل کے قیا م کے وقت استعمال کیا گیا اور حتیٰ کہ مختلف بیر و نی ممالک میں بھی یہ تنظیمیں فلسطین کے حا میوں اور اسرائیل کے مخالفوں کو دہشت گر دی کے وا قعات میں قتل کرتی رہتی تھیں۔

              ۱۹۴۴ ء میں انگلستا ن کے وزیر اعظم چرچل کو دبا ؤکے ذریعے مجبور کیا گیا کہ با قا عدہ ایک یہودی آرمی تشکیل دی جا ئے اور ۱۹۴۶ ء میں امریکا کے صدر ٹرومین نے ایک لا کھ یہو دیوں کو فلسطین میں بھیجا تا کہ یہ وہا ں عر بو ں کے مقابل حکو مت تشکیل دیں سکے جس پرانہوں نے فو راً امریکا سے فلسطین ہجرت کر لی ،لیکن حسب سابق دو حکو متوں کے تشکیل کو قبو ل نہیں کیا (جیسا کہ ذکر ہو چکا کہ یہو دی صر ف اپنے مفا د ات کے حق میں قا نو ن کو قبول کر تا ہے۔)

انتہا ئی شا طر انہ قبضہ :۔

              الغر ض پہلے ۳۵ سا ل میں ۲۵ ہز ار یہودی فلسطین میں آبا د ہوئے جبکے یہو دی و زیر کی زیر سر پرستی میں صر ف پہلے کے چار سال کے عر صے میں ۲۶ ہزا ر یہو دی فلسطین میں آگئے۔اور پھر ۱۵ سال میں ایک لا کھ اور اگلے سا ل ڈھا ئی لا کھ کی تعداد میں یہو دی فلسطین میں آبا د ہو گئے۔

              یعنی ۳۰ سال میں یہو دیو ں کی تعدا د ۵۶ ہزار سے ۷ لا کھ تک پہنچ گئی اور ۱۹۱۷ سے ۱۹۷۳ تک (چھپن سا ل کے مختصر عر صے میں )فلسطین میں یہو دی آ با دی تقریبا ًچھپن ہزا ر (۵۶۰۰۰)سے تیس لاکھ (۰۰۰،۳۰۰۰)تک پہنچ گئی ہے اس طرح یہودیوں کی شاطرانہ منظم سازش کا اندازہ لگایا جاسکتاہے ۔

د رس عبر ت :۔

              ا س سازش کو دیکھتے ہو ئے مسلما نوں کو بید ار ہو جا نا چا ہیے کیونکہ انکا ہدف پوری دنیا کے مسلمان ہیں صرف فلسطین نہیں۔

عقیدہ :۔

              خلا صہ یہو دیو ں کا عقیدہ ہے کہ فلسطین میں یہو دیوں کی مہا جرت خون کی گر دش کی طر ح ہے اور انکی بند ش رگو ں میں خون کی بند ش کی طر ح ہے لہٰذ ا اس گرد ش کو کبھی بھی رو کنی نہیں چا ہیئے۔

              دو سر ی جا نب یہو دی مسلسل امر یکا اور بر طا نیہ کی حکو مت پر دبا ؤ ڈالتے رہتے کہ وہ فلسطینیوں کو زیا دہ سے زیا دہ فلسطین سے مہا جر ت پر مجبو ر کر یں۔

استعما ری سا زش کا نمونہ :۔

              عجیب با ت یہ ہے کہ اگر چہ بر طا نیہ نے تما م ممالک کواپنی بات پر آما دہ کیا کہ وہ اسرا ئیل کی وجو د کو تسلیم کر یں لیکن ۱۹۴۷ میں جب اسرائیل کا با قا عدہ اعلا ن ہو ا تو اکثر مما لک نے اسر ائیل کو تسلیم کیا ۔لیکن خو د بر طانیہ نے اسر ائیل کو اس وقت تسلیم کر نے سے انکا ر کیا تا کہ دنیا کو دکھا سکے کہ وہ کتنا حق پر ست ہے اور عر بوں کو بھی دکھا سکے کہ بر طا نیہ عربوں کے حا می ہے ۔

 اور یو ں ۱۹۴۷ ء میں ایک کلیسا کے اند ر با قاعدہ ایک تقریب میں اسر ائیلی وزیر اعظم نے ہڈسل کی بڑی تصو یر کو آو یز ا ں کرکے اسر ئیل کا تر انہ بجا یا اور ایک علیحد ہ مملکت کا با قا عدہ اعلا ن ہوا جس کے صرف چند منٹ بعد ٹر و مین نے بھی اسر ائیل کے وجو د کو با قا عدہ تسلیم کیا ،البتہ ایک مر تبہ پھر یہا ں بر طا نیہ نے اسر ائیل کو تسلیم کرنے سے (ظا ہر ی طورپر)انکا ر کیا ۔

مزا حمتیں :۔

              ان تما م عر صے میں خو د فلسطین کے اندر سے چھو ٹی مو ٹی تحر یکیں اٹھیں جنمیں سے قیا م یا فا ۱۹۲۱ ء ،۱۹۲۹ ء قیا م بر اق اور شیخ عز الدین قیا م کی تحریک قا بل ذکر ہے لیکن ۱۹۳۵ ء میں شیخ عزالدین قیا م کی شھادت کے بعد تحریک بھی تقریبا ً غیر موثر ہوگئی۔ اسکے علا وہ اسلا می مما لک کی طر ف سے بھی مز ا حمت نہ ہو نے کے برابر تھی۔

عظیم اسرا ئیل کا منصو بہ :۔

              یہو دیوں نے ۱۹۰۵ میں اپنے سو سالہ منصو بہ کا اعلا ن کیا جس کے مطا بق ٹھیک سو سال کے بعد یعنی ۰۵ ۲۰ء میں دنیا پر ایک عظیم حکو مت قائم ہو گی جو یہو دیو ں کی حکو مت ہو گی لیکن بہر صو رت عالم اسلا م میں ایک بیدا ری کی لہریں اٹھیں جن میں انقلا ب اسلا می ایر ان قا بل ذکر ہے اور یہ انقلا ب عظیم اسرا ئیل کے خو ا ب کی راہ میں مشکل ترین رکا وٹ بن چکاہے ۔

فلسطین کے انتخاب کی وجہ :۔

               اگر چہ کہا جا تا ہے کہ یہو دی، مذہبی حو الے سے فلسطین سے عشق رکھتا ہے ۔ بیت المقدس سے خاص عقیدت رکھتا ہے وغیرہ وغیرہ ،لیکن اس قسم کی با توں میں حقیقت نہیں کیونکہ یہو دی فلسطین سے پہلے دنیا کے دو سر ے مما لک میں بھی آبا د ہو نے کی کو شش کر تی رہی ہیں اور حتیٰ کہ ارجنٹا ئن و غیرہ میں بعض کالو نیاں بھی تعمیر کر چکے تھے لیکن مسلسل ناکا می کے بعد فلسطین کا انتخاب کیا کیو نکہ یہ علاقہ ایشیا ء ،یو رپ اور افریقہ کے سنگم پر وا قع ہے اور نہر سو ئزجو تیل کی بر آمد کا سب سے اہم تر ین را ستہ اور جگہ ہے اسی علا قے میں واقع ہے۔

تو قعا ت وخدشات :۔

۱:۔صیہو نستوں سے برابری کی بنیا د پر کبھی بھی صلح اور مذکر ات کا امکا ن نہیں کیو نکہ وہ ایک اعلیٰ دین اور اس سے بڑ ھ کر ایک مخصوص نژ اد اور نسل خود کو سجھتاہے وگر نہ اگر یہ صحیح معنوں میں یہو دی یا عیسا ئی ہو تا توان سے کسی نہ کسی مشتر ک پہلو پر مذا کرات ہو سکتا لیکن انکا تو عقیدہ ہے کہ ہم کا ئنا ت میں افضل ترین نسل ہے خد ا نے حیو انوں کے دو گرو ہوں کو ہما ری خدمت کیلئے بنا یا ہے اور صر ف ہماری عظمت کی خا طر ان میں سے ایک گروہ کو انسا نی شکل میں خلق فر ما یا ہے جنمیں مسلمان اور عیسا ئی سب شا مل ہیں قا بل ذکر ہے کہ اسرا ئیلی وزیراعظم اضحاک را بن کو صر ف اسی وجہ سے بعض بنیا د پر ست صیہو نستوں نے قتل کیا کہ اس نے کیوں دو سر ے انسا نوں کے ساتھ صلح کیا ہے (کیو نکہ انکے علاوہ کوئی انسان ہے ہی نہیں )یا د رہے کہ اس غلط عقیدے کا بانی ہڈسل ہے۔

۲:۔ یہو دی ہی اصل انسا ن ہے اور با قی لو گو ں کی حیثیت خد مت گارو ں جیسی ہیں ۔                            

۳:۔ یہو دی قو م خدا کا منتخب کر دہ بر تر قو م ہے اور رو ئے زمین پر یہ خد اکا خلیفہ ہے ۔

۴:۔ خد اصرف یہو دیو ں سے تعلق رکھتا ہے۔                                          

۵:۔ پو ری دنیا سے یہو دیوں کی فلسطین میں ہجرت لا زمی ہے۔

۶:۔ اسرا ئیلی افسرا ن اپنی میٹنگو ں میں ہمیشہ یہو دی اور غیر یہو دی کی اصطلاح استعما ل کر تے ہیں (جسکا مطلب ہے کہ صرف یہو دی اانسان ہے با قی عر ب ،عجم ، مسلمان ،عیسائی یہ سب حیو ان ہیں۔)

۷:۔ فلسطین میں فلسطینی طلبا کو یو نیو رسٹیو ں میں داخلہ نہیں دئیے جا تے اور انھیں مجبو ر کر تا ہے کہ وہ ملک سے با ہر جائے اور پھر انھیں دو با رہ کبھی فلسطین میں آ نے نہیں دیا جا تا۔

۸:۔ فلسطینوں کوختم کر نے کے لئے ہر ممکنہ طر یقہ استعما ل کر تا ہے اور ۱۹۴۸ ء میں دہر یا سین نا می گا ؤں میں ڈھا ئی سو افراد اجتما عی قبر اور پھر پہلے جنین کے کیمپ میں وحشیا نہ قتل و غارت اس با ت کا منہ بو لتا ثبو ت ہے۔

۹:۔ عظیم اسرائیل کے منصو بے کے مطا بق انہوں نے پہلے ۱۹۶۷ ء میں پو رے فلسطین اور اردن و شام کے کچھ علا قوں پر قبضہ کیا اور ۱۹۷۸ء میں جنو بی لبنا ن پر قبضہ جما یا ،پہلے نیل سے فر ا ت تک کا دعوی کر تا تھا اور اسکے لئے جغر افیا ئی سرزمین اور حدود کی اصطلا ح استعما ل کر تا تھا لیکن اسکے بعد انہوں نے امنیتی سر حدوں کی اصطلا ح کا استعما ل شر وع کیایعنی جہاں جہا ں اسرائیلی مفا د کو خطر ہ ہو وہاں ایک یہودی سلطنت (سلطنت عثما نیہ کی مانند)کی تعمیر انکا اولین مقصد ہے۔

۱۰:۔ ہمیشہ بڑی طا قتوں سے انتہا ئی دو ستانہ تعلقا ت رکھتے ہیں ۔۱۹۱۷ ء میں معا ہدہ با لفو ر کے وقت بر طا نیہ سے مظبو ط دو ستی تھی اور ۱۹۴۲ ء کو نیو یا رک میں معاہدہ با لٹیمورکے تحت امریکہ سے دو ستی ہو ئی اور اس وقت بھی اگر امر یکہ اسر ائیل پر سے ہا تھ اٹھا ے تو اسرائیل کی دہشت گر دی ختم ہو جا ئے گی۔

۱۱:۔صیہو نستی یہو دی نر م زبا ن نہیں جا نتا اور ہمیشہ فو جی اصولوں پر مسا ئل کو حل کر تا ہے۔دہشت گر د گر و ہو ں کے ذریعے فلسطین اور ملک سے با ہر فلسطین رہنما وں کا قتل اس با ت کا عمدہ ثبوت ہے اور نیز ڈا کٹر فتح شقاقی ،سید عبا س مو سو ی ،عبیدالکریم عبید ، صا لح شھا دہ،اورحماس کے عظیم لیڈر شیخ یاسین کی شہا دت اسر ائیل کے دہشت گر د گر وہو ں کے سیا ہ کارنامے ہیں  اور آج غزہ پر حملہ اور معصوم بچوں اور خواتین کا قتل عام اس کے مکروہ چہرے کو مزید واضح کررہا ہے۔

۱۲:۔ایک مشہو ر اسرائیلی اپنی زبا ن میں صہیونستی سیا ست کو اسطر ح بیا ن کرتا ہے۔

,,میرا بھا ئی بنو ورنہ قتل کر دونگا،،

              قابل ذکر ہے کہ نائن الیون کے بعد صدر بش کا یہ احمقانہ نعرہ بھی یہودی لابی کے دباو اور سازشوں کا شاخسانہ ہے کہ

‘‘یا ہمارے ساتھ یا ہمارے مخالف بنو’’

              یعنی یہ کہ دنیا بھر کے عوام اور حکمران یا امریکا کے سامنے سرتسلیم خم کرکے ان کے اشاروں پر چلے یا پھر ان کے انتقام کا نشانہ بننے کے لئے تیار رہیں ۔

نظر یا تی اصول:۔

               ہم یہودی مطلق حق ہے اور با قی سب با طل ہیں ۔

 اسٹر اٹیجیک اصول :۔

              عظیم اسرائیل کاوجو د اور اس کی راہ میں جو رکا وٹ ہو اسے ہٹادیا جا ئے اور تعجب کی با ت ہے کہ امریکہ نے بھی یہی اعلا ن کیا ہے کہ وہ دنیا بھر میں مختلف گر و پس بھیج رہا ہے جو امریکہ کے مقا صد کی راہ میں حائل رکا وٹو ں کو ختم کر ینگے اور امریکہ کی خارجہ پالیسی کا محور ‘‘اسرائیل کے ساتھ ممالک کے روابط ’’پر بنتی ہے ۔ البتہ اس نکتے کا ذکر کر نا بھی مفید ہو گا کہ اسرا ئیل حکو مت اپنے عوام کو مطمین رکھنے کے لئے مختلف پر و پیگنڈو ں کا سہا ر الیتی ہے مثلا ً

۱:۔ ہم یہو دی مظلوم ہیں اور آ زادی ہما را حق ہے ۔

۲:۔ ہم انسا نی حقوق کے طلبگا ر ہیں ۔                        

۳:۔ ہم دنیا سے وہشت گر دی کوختم کر کے امنیت چا ہتے ہیں ۔وغیرہ وغیرہ ۔

              بہر حال عظیم اسرائیل کے منصوبے کی تکمیل کے لئے پوری یہودی مشینری امریکی بل بوتے پر دنیا بھر میں مصروف عمل ہیں اور عراق میں موساد کے اڈے سرعام دیکھے گئے ہیں ۔لبنان کے عظیم سپوتوں اور حز ب اﷲ کے باایمان جوانوں سے زبردست شکست کے امریکہ اور اسرائیل ایک نئے مشرقی وسطی کے خواب کو اب بھی دیکھ رہے ہیں۔

اس وقت غزہ میں جو صورتحال ہے وہ ہر انسان کے دل کو دہلا دیتا ہے اور اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ پوری دنیا کے مسلمان اٹھیں اور فلسطین کے لیے دامے درمنے سخنے جو کرسکتے ہیں کرکے دکھائیں تاکہ دنیا کو یہ معلوم ہونا چاہیئے کہ مسلم امہ بیدار ہے۔

 

تحریر و تحقیق: ڈاکٹر ایم حسین

نظرات بینندگان
captcha