شہید" کے مختلف معنی و مفہوم ہیں۔ شہید ایک لحاظ سے وہ ہے جس کا علم پوشیدہ نہ ہو۔ یہ فطری بات ہے کہ صرف خدا ہی میں ایسی خصوصیات ہیں اور اسی وجہ سے بہت سی آیات میں خدائی صفات کی وضاحت کے طور پر یہ بیان کیا گیا ہے: «وَاللَّهُ شَهِيدٌ عَلَى مَا تَعْمَلُونَ»(آل عمران: 98)۔ اگلے مراحل میں انبیاء ہیں: «وَ يَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا»(البقرہ: 143) اور فرشتے: «وَ جَاءَتْ كُلُّ نَفْسٍ مَعَهَا سَائِقٌ وَ شَهِيدٌ» (ق: 21)
شاہد کے معنی بعض اوقات گواہ بھی ہوتے ہیں، مثال کے طور پر، وہ لین دین میں گواہوں کو شہید کے لقب سے کہتے ہیں: «وَلَا يُضَارَّ كَاتِبٌ وَ لَا شَهِيدٌ» (البقرۃ: 282)، بعض اوقات اس کا معنی زمانہ حال کے ہوتا ہے: «فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ» (البقرہ: 185)) اور بعض اوقات یہ دلیل اور ہدایت کے معنی میں آتا ہے اور آیت: «لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ» (البقرہ: 143)۔
مجموعی طور پر قرآن مجید کی آیات میں "شہید" اور "شہداء" کے الفاظ 55 مرتبہ آئے ہیں، سوائے ایک صورت کے، ان سب کے معنی گواہ، ثبوت، حاضر اور باخبر ہیں۔ یہ صرف ایک آیت میں خدا کی راہ میں قتل ہونے کے معنی میں استعمال ہوا «فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَ الصِّدِّيقِينَ وَ الشُّهَدَاءِ» ۔ بلاشبہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں اور اس کے بعد راہ خدا میں شہید ہونے والوں کے لیے شہید کا لقب بہت استعمال ہوا۔
شاید اسی وجہ سے راہ خدا میں مارا جانے والا شہید کہلاتا ہے کیونکہ اس نے دین خدا کی راہ میں اپنی جان قربان کی اور اس بات کی گواہی دی کہ خدا اور اس کے احکام حق ہیں۔ یہ شخص جو دنیا میں اپنی جان کی قربانی دے کر حق و سچ کی گواہی دیتا ہے، آخرت میں خدا کی طرف سے اس کا شمار دوسروں پر گواہی دینے والوں میں ہوتا ہے: «شَهِدَ اللَّهُ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ وَالْمَلَائِكَةُ وَأُولُوا الْعِلْمِ قَائِمًا بِالْقِسْطِ»۔‘‘ (آل عمران: 18)