ایکنا نیوز- عربی ۲۱ نیوز کے مطابق، غزہ پر اسرائیلی حملے کے آغاز کو 395 روز گزر چکے ہیں، اور اس دوران اسرائیلی مظالم مسلسل جاری ہیں۔ اب تک ان حملوں میں 43 ہزار سے زائد فلسطینی شہید، دسیوں ہزار زخمی اور سینکڑوں ہزار افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔
اس کے علاوہ، اسرائیل نے جنوبی لبنان پر بھی حملے کرکے خطے میں ایک اور محاذ کھول دیا ہے۔ اسرائیلی فوج اور حزب اللہ کے درمیان ہونے والی جھڑپوں میں لبنان کے سینکڑوں افراد شہید ہو چکے ہیں، جبکہ حزب اللہ نے بھی اسرائیل کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔
ایکنا نے خطے کی صورتحال اور سیاسی چشم انداز پر تبصرہ کے لیے ملائیشیا کے سیاستدان سید ابراہیم سید نوح سے بات چیت کی، جو 2018 سے ملائیشیا کے پارلیمان میں لدانگ علاقے کی نمائندگی کر رہے ہیں۔
طوفان الاقصی کے بعد اسرائیل کے خلاف بین الاقوامی اتحاد کی تشکیل
سید نوح نے طوفان الاقصی کی ایک سالہ کامیابیوں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ فلسطینی مزاحمتی تحریکوں نے گزشتہ ایک سال میں بڑی ثابت قدمی اور لچک کا مظاہرہ کیا ہے۔ طوفان الاقصی آپریشن نے فلسطینی گروہوں، بالخصوص حماس، کی کارروائیوں کو مؤثر طریقے سے منظم کرنے کی صلاحیت کو اجاگر کیا، جس سے اسرائیل کے فوجی اور سکیورٹی نظام میں سنجیدہ خلل پیدا ہوا۔
فلسطین کے دفاع میں ماہر دانشوروں کا کردار
سید نوح نے کہا کہ اسلامی دنیا کے نخبگان فلسطین کے حق میں عوامی رائے اور پالیسیوں کو تشکیل دینے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ دانشور، مذہبی رہنما، اور سیاسی شخصیات فلسطینیوں کے حقوق کے مؤثر محافظ بن سکتے ہیں۔
اسرائیل میں داخلی تقسیم اور طوفان الاقصی کے اثرات
انہوں نے کہا کہ غزہ کی جنگ کے بعد اسرائیل کو اندرونی طور پر شدید مسائل کا سامنا ہے۔ اس جنگ نے اسرائیل کے اندرونی سیاسی، نسلی، اور مذہبی گروہوں کے درمیان اختلافات کو بڑھا دیا ہے، جس سے سماجی تناؤ مزید بڑھ گیا ہے۔ اس کے علاوہ، بڑھتے ہوئے فوجی اخراجات اور عالمی دباؤ نے اسرائیلی معیشت کو بھی متاثر کیا ہے۔
ایران اور اسرائیل کے مابین ممکنہ تصادم
سید نوح کا کہنا تھا کہ ایران کا بڑھتا ہوا اثرورسوخ، خصوصاً لبنان، شام، اور عراق میں اس کے اتحادیوں کے ذریعے، خطے میں بڑے پیمانے پر تنازع کا امکان پیدا کرتا ہے۔ اگرچہ براہِ راست جنگ کا امکان کم ہے، تاہم مختصر مدتی میں ایرانی حمایت یافتہ قوتوں اور اسرائیل کے درمیان محدود جھڑپوں کا امکان زیادہ ہے۔
جنوبی لبنان میں حزب اللہ کی برتری
انہوں نے کہا کہ لبنان میں اسرائیلی زمینی حملہ اسرائیل کے لیے ایک پرخطر کارروائی ہوگی۔ حزب اللہ نے 2006 کی جنگ کے بعد پیچیدہ دفاعی نظام بنایا ہے، جس میں سرنگیں، میزائل، اور گوریلا حربے شامل ہیں۔ جنوبی لبنان میں زمینی آپریشن حزب اللہ کو برتری دیتا ہے۔ اسرائیل کی فوجی طاقت کے باوجود، اس زمینی کارروائی کی انسانی اور سیاسی قیمت اسرائیل کے لیے کافی بھاری ہے اور رہے گی۔
4243208