ایکنا: قرآنی تعلیمات کی روشنی میں انسان کی دو قسم کی مدتِ حیات بیان کی گئی ہے، جنہیں اجلِ معلق اور اجلِ مسمیٰ کہا جاتا ہے۔ قرآن کی آیات، خاص طور پر سورہ انعام کی دوسری آیت میں ان دونوں اجل کا ذکر ملتا ہے۔ قرآن کے مفسرین آیت "هُوَ الَّذِى خَلَقَكُم مِّن طِينٍ ثُمَّ قَضىَ أَجَلًا وَ أَجَلٌ مُّسَمًّى عِندَهُ" (وہی ہے جس نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا، پھر ایک وقت مقرر کیا، اور ایک معین مدت اس کے پاس ہے) کی بنیاد پر بیان کرتے ہیں کہ انسان کی دو مدتِ حیات ہیں: ایک اجلِ مسمیٰ (یعنی مقررہ وقتِ وفات) اور دوسری اجلِ معلق۔
اجلِ مسمیٰ یا حتمی موت وہ ہے جو انسان کے جسم کے بقاء کی صلاحیت کے اختتام پر وقوع پذیر ہوتی ہے، اور جب یہ وقت آ جاتا ہے تو اللہ کے حکم سے سب کچھ ختم ہو جاتا ہے۔ اس قسم کی موت کا ذکر اس آیت میں ہے: "فَإِذا جاءَ أَجَلُهُمْ لا يَسْتَأْخِرُونَ ساعَةً وَ لا يَسْتَقْدِمُونَ" (جب ان کا وقتِ اجل آتا ہے تو نہ وہ ایک گھڑی پیچھے ہو سکتے ہیں اور نہ آگے) [سورہ اعراف، آیت 34]۔
دوسری طرف، اجلِ معلق وہ موت ہے جو حالات کی تبدیلی کے ساتھ تبدیل ہو سکتی ہے۔ خودکشی اس کی ایک مثال ہے، کیونکہ اگر کوئی شخص خودکشی نہ کرے تو ممکن ہے کہ وہ برسوں تک زندہ رہے۔
مزید وضاحت یہ ہے کہ بہت سی مخلوقات اپنی فطری ساخت کے لحاظ سے لمبے عرصے تک زندہ رہنے کی صلاحیت رکھتی ہیں، لیکن اس مدت کے دوران مختلف رکاوٹیں انہیں اپنی فطری عمر کو پہنچنے سے روک سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر، ایک تیل کا چراغ اپنی تیل کی مقدار کے حساب سے تقریباً بیس گھنٹے روشنی دے سکتا ہے، مگر شدید ہوا، بارش یا بے احتیاطی کے باعث اس کا وقت کم ہو سکتا ہے۔ اگر چراغ بغیر کسی رکاوٹ کے جلتا رہے اور آخر تک تیل ختم ہونے کے بعد بجھ جائے، تو اسے اجلِ حتمی یا مسمیٰ کہیں گے؛ اور اگر کسی رکاوٹ کے باعث جلدی بجھ جائے، تو یہ غیر حتمی یا معلق اجل کہلائے گا۔