حجۃ الاسلام علیرضا قبادی، سماجیات کے ماہر اور دینی علوم کے محقق، نے امام جواد علیہ السلام کی ولادت کے موقع پر "اسلام اور تشیع میں خوشی کے امکانات" کے سلسلہ نوٹس میں سے ایک مضمون ایکنا کو فراہم کیا ہے، جس کی تفصیل ذیل میں پیش کی جاتی ہے۔
خوشی معاشرتی زندگی کی ایک ضرورت ہے اور اس کے فرد اور معاشرہ دونوں کے لیے بے شمار فوائد ہیں۔ تاہم، مختلف ثقافتوں میں خوشی پیدا کرنے والے اعمال اور اس کے حصول کے معیار مختلف ہوتے ہیں۔ اس مضمون میں ہم ایک ایسی خوشی پیدا کرنے والی عمل کا ذکر کرتے ہیں اور اس شرط کو بیان کرتے ہیں جسے امام جواد علیہ السلام نے اس خوشی کی حفاظت اور استحکام کے لیے ضروری قرار دیا۔
ایک روایت میں آتا ہے کہ ایک آدمی خوشی کے ساتھ امام جواد علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا۔ امام نے اس کی خوشی کا سبب پوچھا۔ اس نے جواب دیا: میں نے آپ کے والد (امام رضا علیہ السلام) سے سنا تھا کہ بہترین دن جس میں بندہ خدا خوشی منانے کا مستحق ہے وہ دن ہے جب اسے اپنے مومن بھائی کی خدمت کرنے کی توفیق ملے۔ آج کچھ ضرورت مند میرے پاس آئے، اور میں نے ان میں سے دس کی حاجت پوری کی۔ اسی لیے مجھے اس قدر خوشی محسوس ہو رہی ہے۔ امام جواد علیہ السلام نے فرمایا: "قسم ہے میری جان کی، واقعی تجھے خوش اور مسرور ہونا چاہیے۔" اس کے بعد امام نے سورہ بقرہ کی آیت 264 تلاوت کی:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُبْطِلُوا صَدَقَاتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْأَذَى؛ اے ایمان والو! اپنی خیرات کو احسان جتا کر اور ایذا دے کر برباد نہ کرو۔
یوں امام جواد علیہ السلام نے اس آیت کے ذریعے اس شخص کو یاد دلایا کہ خوشی کی حفاظت اور نیکی کے ثواب کی بقا کا انحصار احسان جتانے اور اذیت دینے سے بچنے پر ہے۔
آخر میں، امام جواد علیہ السلام کی بابرکت ولادت پر ایک بار پھر مبارکباد پیش کرتے ہوئے، ہم اللہ تعالی سے دعا کرتے ہیں کہ ان پرمسرت ایام میں مادی اور روحانی خوشیوں کی نعمت سے نوازے، اور امام جواد علیہ السلام کی پاکیزہ روح پر سلام و درود بھیجتے ہیں۔
: السَّلامُ عَلَيْكَ يا نُورَاللّٰهِ فِي ظُلُماتِ الْأَرْضِ.