«کارلا پاور» کا قلب قرآن میں ایک سالہ مذہبی تجربہ

IQNA

علمی نشست؛

«کارلا پاور» کا قلب قرآن میں ایک سالہ مذہبی تجربہ

7:03 - January 19, 2025
خبر کا کوڈ: 3517827
ایکنا: پاور اسلام کی طرف گرچہ نہیں آیا مگر انہوں نے دینی فھم میں مکمل عبور حاصل کی۔

ایکنا نیوز- انجمنِ مباحثاتِ قرآنی کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق 106ویں قرآنی مباحثے کا اجلاس قم میں واقع جامعہ ادیان و مذاہب کے شہید صدر ہال میں منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں امریکی صحافی، مصنفہ، اور قرآن‌پژوہ کارلا پاور نے "کلیشے توڑنا اور قرآن کا غیرمسلمان کے طور پر مطالعہ" کے موضوع پر گفتگو کی۔

کارلا پاور کا پس منظر پروفیسر زہرا اخوان صراف نے کارلا پاور کے کام پر ایک تحریری نوٹ میں بتایا کہ پاور نے اسلامی ثقافتوں پر کئی معروف جریدوں، بشمول ٹائم، نیویارک ٹائمز میگزین، اور فارن پالیسی کے لیے لکھا ہے۔ ان کے والد کے پیشے کی بدولت انہوں نے ابتدائی زندگی امریکہ اور مشرقِ وسطیٰ میں گزاری۔ ییل اور آکسفورڈ یونیورسٹیوں سے تعلیم حاصل کرنے والی پاور دو دہائیوں سے زائد عرصے سے صحافت میں ہیں۔ وہ کئی کتب کی مصنفہ ہیں اور اس وقت آمنہ ودود کی سوانح حیات لکھ رہی ہیں۔

پاور کی معروف تصنیف "If the Oceans Were Ink: An Unlikely Friendship and a Journey to the Heart of the Quran" میں انہوں نے ہندوستانی عالم شیخ محمد اکرم ندوی کے ساتھ قرآن کے مطالعے کے ایک سالہ سفر کو بیان کیا ہے۔ یہ کتاب 2015 میں شائع ہوئی اور پولیٹزر انعام اور نیشنل بک ایوارڈ کے لیے نامزد ہوئی۔

گفتگو کا محور اجلاس میں پاور نے اپنی کتاب میں بیان کردہ ذاتی تجربات کو موضوع بنایا۔ ان کا مطالعہ محض نظری یا سطحی نہ تھا بلکہ قرآن کے ساتھ ایک بین المذاہب مکالمے اور ہفتہ وار مطالعاتی نشستوں کا عکاس تھا۔ یہ تجربہ اسلام سے متعلق مغربی تصورات اور روایتی تفاسیر کو چیلنج کرتا ہے۔

اہم نکات

  • پاور نے دریافت کیا کہ قرآن میں سادہ نظر آنے والی آیات بھی کئی تہہ دار معانی اور مختلف تفاسیر رکھتی ہیں۔ ان کے مطالعے سے مغربی دنیا کے اسلام سے متعلق غلط فہمیاں دور ہوئیں، خصوصاً خواتین عالمات کی تاریخ کا انکشاف، جو عمومی بیانیے کے برخلاف ہے۔ پاور نے ایمان کی روزمرہ زندگی میں اثر پذیری کو سمجھا اور دیکھا کہ مسلمان فکری تجزیے کو ترک کیے بغیر دین سے رہنمائی اور سکون پاتے ہیں۔

نتیجہ پاور کے تجربے سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ قرآن کی بنیاد پر بین المذاہب اور ثقافتی مکالمہ ممکن ہے، اور اختلافِ رائے باہمی احترام اور تفہیم کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتا۔ انہوں نے یہ بھی سیکھا کہ جدید علماء روایتی تفاسیر اور عصری تقاضوں میں توازن برقرار رکھتے ہیں۔/

 

4260325

نظرات بینندگان
captcha