ایکنا نیوز- الجزیرہ نیٹ ورک کی ویب سائٹ نے ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں پہلے برطانوی سونے کے دینار کا جائزہ لیا گیا ہے، جس پر "لا الہ الا اللہ" کا کتبہ کندہ تھا۔ اس رپورٹ میں اس اقدام کے اسباب اور پہلے فرد کے بارے میں بحث کی گئی ہے جس نے یہ دینار جاری کیا تھا۔
یورپ میں اسلام کی تاریخی جڑیں
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یورپ میں اسلام کی تاریخ گہری اور قدیم ہے، جو اس وقت سے شروع ہوتی ہے جب مسلمان مشرقی اور مغربی یورپ کا سفر کرنے لگے۔ یہ تاریخ مشرقی یورپ میں ابتدائی اسلامی صدیوں کے دوران بزنطینی سلطنت کے ساتھ مسلمانوں کی مڈبھیڑ اور مغربی یورپ میں اندلس کی فتح کے بعد مسلمانوں کے شمالی یورپ میں پھیلاؤ اور فرانس کے دارالحکومت پیرس کے قریب پہنچنے سے شروع ہوئی۔
اسلام کا یورپ پر اثر
مشہور مورخ شکیب ارسلان اپنی کتاب "فرانس، سوئٹزرلینڈ، اٹلی اور بحیرہ روم کے جزیروں میں عربوں کی جنگوں کی تاریخ" میں لکھتے ہیں کہ مسلمانوں کی موجودگی مغربی یورپ میں صرف اسپین، پرتگال اور فرانس تک محدود نہیں تھی، بلکہ ابتدائی اسلامی صدیوں میں سوئٹزرلینڈ اور اٹلی تک بھی پہنچ چکی تھی۔ یوں یورپ بہت جلد اسلام اور اس کے پیروکاروں سے واقف ہوا اور اس نئے تہذیبی دھارے سے متاثر ہوا۔
اسلامی تہذیب کا اثر اور مغرب کے ساتھ تعلقات
اسلام اور مغرب کے تعلقات صرف جنگ، تصادم، اور پیچھا کرنے تک محدود نہیں تھے بلکہ ان کے درمیان سیاسی، اقتصادی، تجارتی، اور سفارتی تعلقات بھی موجود تھے۔ اموی اور عباسی خلفاء کے عہد میں اسلامی تہذیب ایک نمایاں ماڈل بن گئی جس کی طرف مغربی اقوام اور روس بھی راغب ہوئے۔
مشہور مورخ ول ڈیورانٹ اپنی انسائیکلوپیڈیا میں لکھتے ہیں کہ 700 سے 1200 عیسوی تک اسلام پانچ صدیوں تک طاقت، حکمرانی، فتوحات، ادب، اخلاق، معیارِ زندگی کی بہتری، رحم دل قانون سازی، مذہبی رواداری، سائنسی تحقیق، طب اور فلسفہ میں دنیا پر حکمرانی کرتا رہا۔ اس عظیم اخلاقی، دینی، اور علمی ترقی نے مسلمانوں کو دنیا کے لیے ایک نمونہ بنایا، جس کی تقلید کرنے کی مغربی اقوام نے بھی کوشش کی۔
سونے کا دینار اور اس کا پس منظر
دستیاب تاریخی دستاویزات کے مطابق، 19ویں صدی کے وسط میں روم میں برطانیہ میں جاری کردہ ایک سونے کا دینار دریافت ہوا، جس کے دونوں جانب "لا الہ الا اللہ" اور "محمد رسول اللہ" کندہ تھا۔
یہ دینار دراصل آنگلو سیکسن بادشاہ اوفا ریکس (Offa Rex) کے دور کا ہے، جو آٹھویں صدی عیسوی (1200 سال قبل) میں حکمران تھا۔
اوفا ریکس اور اسلامی اثرات
اوفا ریکس آنگلو سیکسن حکمرانوں میں سے ایک نمایاں بادشاہ تھا، جو 757 سے 796 عیسوی تک تقریباً 40 سال تک اقتدار میں رہا۔ اس نے برطانیہ کو متحد کرنے میں بڑا کردار ادا کیا۔
یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اوفا ریکس نے اسلامی عبارات والے دینار کیوں جاری کیے؟ اور یہ سکہ روم میں کیسے دریافت ہوا؟ برطانیہ کی تاریخ کو دیکھیں تو چوتھی صدی کے وسط سے چھٹی صدی کے وسط تک جرمن قبائل (آنگلو سیکسن، ڈینش اور جرمن) نے برطانیہ پر حملہ کیا اور مقامی آبادی کو پیچھے دھکیل دیا۔ بعد میں یہ قبائل مختلف چھوٹی بادشاہتوں میں تقسیم ہو گئے۔
اوفا ریکس کی بادشاہت "مرسیا" ان میں سب سے طاقتور بنی اور اس نے تمام برطانوی بادشاہتوں کو متحد کیا۔ تاہم، اس کی طاقت کا دارومدار معاشی ترقی، تجارت، اور سفارتی تعلقات پر تھا۔
اسلامی دنیا کے ساتھ تجارتی تعلقات
اوفا نے اسلامی دنیا کے ساتھ تجارتی تعلقات مضبوط بنانے کی کوشش کی، کیونکہ اس وقت عباسی خلافت عروج پر تھی، اور مسلمان اندلس اور جنوبی فرانس میں اپنی موجودگی مضبوط کر چکے تھے۔
کلیسائی سیاست اور اوفا
اوفا نے رومن کیتھولک کلیسا کے اقتدار کو تسلیم کرنے میں تذبذب کا مظاہرہ کیا، جبکہ اس وقت کا رومی بادشاہ شارلمان (Charlemagne) اسے اپنا حلیف بنانے کی کوشش کر رہا تھا۔ لیکن اوفا کی ہچکچاہٹ کی وجہ سے، شارلمان نے انگلش تاجروں پر فرانس میں تجارت کرنے پر پابندی لگا دی، جس سے اوفا مجبور ہوا کہ وہ پوپ کے اقتدار کو تسلیم کرے۔
دینار پر اسلامی کتبے
مشہور تاریخ دان مصطفی الکنانی اپنی کتاب "عہدِ اوفا: انگلینڈ کا بادشاہ" میں لکھتے ہیں کہ اوفا کے ابتدائی دور میں سکے عیسائی صلیب اور بادشاہ کی تصویر کے ساتھ جاری ہوتے تھے، لیکن بعد میں یہ روایت بدلی اور 157 ہجری (774 عیسوی) میں جاری ہونے والے سونے کے دینار پر "لا الہ الا اللہ" کندہ کیا گیا۔
ان دیناروں پر درج تحریر یہ تھی:
"محمد رسول اللہ ارسله بالهدى و دین الحق لیظهره علی الدین کله" (محمد اللہ کے رسول ہیں، انہیں ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا گیا تاکہ وہ اسے تمام ادیان پر غالب کریں)۔
"لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ" (اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ یکتا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں)۔
سکے کے پیچھے "بسم اللہ ضرب هذا الدینار سنة سبع و خمسین و مئة" (اللہ کے نام سے، یہ دینار 157 ہجری میں جاری ہوا)۔
درمیان میں "محمد رسول اللہ" کے ساتھ اوفا ریکس (OFFA REX) کا نام درج تھا۔
اوفا ریکس کا یہ دینار اس بات کا ثبوت ہے کہ برطانوی حکمران اسلامی دنیا کے ساتھ تجارتی اور سفارتی تعلقات استوار کرنے میں دلچسپی رکھتے تھے۔ اس اقدام سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسلامی تہذیب کی اثر پذیری اور اقتصادی برتری نے مغربی اقوام کو بھی متاثر کیا، حتیٰ کہ ایک عیسائی بادشاہ نے اپنے سکے پر اسلامی شعار کندہ کروایا۔
یہ تاریخی واقعہ یورپ میں اسلامی اثرات کی گہرائی کو ظاہر کرتا ہے، اور اس بات کی دلیل ہے کہ مسلمانوں کی علمی، اقتصادی، اور تہذیبی برتری نے عالمی تاریخ پر گہرے نقوش چھوڑے۔
یہ دینار پہلی بار روم کی نیلامی میں پیش کیا گیا اور غالباً یہ پاپ آدریان اول کے سالانہ تحفے یا جزیے کا حصہ تھا، کیونکہ اوفا نے عہد کیا تھا کہ وہ ہر سال 365 سونے کے سکے پاپ کو بھیجے گا۔ اس سکے کا ڈیزائن اور اس پر کندہ عبارتیں بڑی حد تک عباسی خلافت کے دور میں ابو جعفر المنصور کے دینار سے مشابہت رکھتی تھیں۔
اس وقت شارلمان ان اولین افراد میں شامل تھا جنہوں نے خلیفہ ہارون الرشید کے ساتھ تعلقات مضبوط کیے، اور دونوں جانب سے قیمتی تحائف کا تبادلہ ہوا۔ اسی وجہ سے اوفا رکس نے طاقتور سلطنتوں کے ساتھ تعلقات استوار کرکے مسلمانوں کے ساتھ تجارتی روابط کو فعال بنانے کی کوشش کی۔ اس اقدام کے ذریعے اس نے یورپی سکوں کو اسلامی دنیا میں تسلیم کروانے کا راستہ ہموار کیا کیونکہ اسلامی ممالک وہ سکے قبول نہیں کرتے تھے جن پر صلیب کی تصویر بنی ہوتی۔
یہ سونے کے دینار جو اسلامی طرز پر تیار کیے گئے تھے، ایک معیاری کرنسی سمجھے جاتے تھے۔ اسی لیے آٹھویں صدی کے آخر میں یہ اسلامی دینار، جسے "مانکوس" (منقوش) کہا جاتا تھا، بحیرۂ روم کے ممالک میں بےحد مقبول ہو گیا۔ چنانچہ دیگر اقوام نے بھی اسی طرز کو اپنایا، اور یہ دینار بین الاقوامی تجارتی لین دین کا ایک باضابطہ حصہ بن گیا۔/
4267166