ایکنا نیوز- ماہِ رمضان ایمان کو مضبوط کرنے، نفس کو پاکیزہ بنانے اور منفی جذبات جیسے غصے اور اضطراب پر قابو پانے کا بہترین موقع ہے۔ روزہ رکھنا صرف کھانے پینے سے پرہیز کرنے کا نام نہیں، بلکہ اس میں اعمال، گفتار اور حتیٰ کہ خیالات کو بھی قابو میں رکھنا شامل ہے۔ قرآنِ کریم میں کئی آیات میں غصے اور اضطراب پر قابو پانے کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے اور ان جذبات کو سنبھالنے کے طریقے بیان کیے گئے ہیں۔
مثال کے طور پر، سورہ آل عمران کی آیت 134 میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: "الَّذِينَ يُنْفِقُونَ فِي السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ ۗ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ" (وہ لوگ جو خوشحالی اور تنگ دستی میں خرچ کرتے ہیں، غصے کو پی جاتے ہیں اور لوگوں سے درگزر کرتے ہیں، اور اللہ نیکوکاروں کو پسند کرتا ہے۔) یہ آیت واضح طور پر غصے پر قابو پانے کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے اور اسے نیکی اور تقویٰ کی علامت قرار دیتی ہے۔ رمضان میں روزے دار صبر اور برداشت کی مشق کرتے ہوئے اپنے غصے کو کنٹرول کر سکتے ہیں اور سخت ردِعمل دینے کے بجائے دوسروں کی غلطیوں سے درگزر کر سکتے ہیں۔
روزہ رکھنے سے کھانے، پینے اور دیگر مادی خواہشات پر عارضی پابندی لگتی ہے، جس کے ذریعے انسان کو اپنے نفس پر قابو پانے کی تربیت ملتی ہے۔ جب کوئی شخص دن بھر کھانے پینے سے اجتناب کرتا ہے، تو وہ درحقیقت اپنے نفس کو قابو میں رکھنے کی مشق کر رہا ہوتا ہے۔ یہ مشق نہ صرف جسمانی بلکہ روحانی اور نفسیاتی پہلوؤں پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ روزہ دار سیکھتا ہے کہ وہ منفی جذبات جیسے غصے اور اشتعال کے خلاف کیسے مزاحمت کرے۔
سورہ بقرہ کی آیت 183 میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ" (اے ایمان والو! تم پر روزہ فرض کیا گیا ہے، جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیا گیا تھا، تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔)
اس آیت میں تقویٰ کو روزے کا بنیادی مقصد قرار دیا گیا ہے، اور تقویٰ کا ایک اہم پہلو جذبات اور رویّوں کو قابو میں رکھنا ہے۔
نتیجتاً، رمضان صبر اور استقامت کے ذریعے غصے پر قابو پانے کی بہترین تربیت فراہم کرتا ہے۔ قرآن کی ہدایت کے مطابق، روزے کا مقصد تقویٰ حاصل کرنا ہے، اور تقویٰ ہی غصے جیسے منفی جذبات پر قابو پانے کا بہترین ذریعہ ہے۔