ایکنا نیوز- ٹیلگرام چینل "انعکاس" کے مطابق ایک ایسا دستاویز ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ حضرت علی (ع) نے 39 ہجری میں اپنے بیٹوں کے لیے مرتب کیا تھا تاکہ اپنی زمینوں کو فلاحی وقف میں تبدیل کرنے کے اپنے ارادے کا اعلان کریں۔ یہ دستاویز حضرت علی (ع) کی زمینوں کی نشاندہی کرتی ہے اور واضح کرتی ہے کہ ان کی دولت کو ان کے بیٹوں میں کس طرح تقسیم اور منظم کیا جانا چاہیے۔
اوہائیو اسٹیٹ یونیورسٹی کے پروفیسر، شان آنتونی، نے اپنے تازہ ترین مقالے میں اس وصیت کے تاریخی مواد، ابتدائے اسلام میں زرعی زمینوں کے کاشت کے روایتی طریقوں سے اس کی مطابقت، خاندانِ علی (ع) میں اس وصیت کے تحریری ورژن اور منتقلی کے طریقوں، اور علوی خاندان کے اندر حضرت علی (ع) کی صدقات سے متعلق اختلافات کا تجزیہ کیا ہے۔
اس وصیت نامے کے کم از کم پانچ قدیم نسخے محفوظ ہیں، اور آنتونی کا کہنا ہے کہ یہ تمام نسخے ایک مستند اور قدیم دستاویز سے اخذ کیے گئے ہیں، جس کی کاپیاں یقیناً ابتدائی علویوں کے پاس موجود تھیں۔
اس وصیت کا سب سے مکمل نسخہ ابن شبہ نے "اخبار المدینہ" میں اور بعد میں کلینی نے "الکافی" میں محفوظ کیا ہے۔ آنتونی نے ابن شبہ کے نسخے کو "الکافی" میں موجود متبادل روایات کی مدد سے تصحیح کرکے مکمل وصیت نامے کا ترجمہ اور تجزیہ کیا ہے۔
یہ قابل ذکر ہے کہ ابن شبہ کا ماخذ وہ نسخہ ہے جو حسن بن زید (وفات 168 ہجری)، جو زید بن حسن بن علی بن ابی طالب کے بیٹے اور ان اوقاف کے ایک متولی تھے، کے پاس موجود تھا۔ خوش قسمتی سے، 1995 میں دو طویل عربی کتبے وادی حزره میں، جو مدینہ اور ينبع کے درمیان واقع ہے اور ان اوقاف کا ایک بنیادی مقام ہے، دریافت اور شائع کیے گئے۔ آنتونی کے مطابق، یہ کتبے "زید کی اس علاقے میں سرگرمیوں کی ایک ابدی گواہی" کے طور پر باقی رہیں گے۔
آنتونی نے مزید ایک روایت نقل کی ہے جس میں بیان کیا گیا ہے کہ حضرت علی (ع) نے ينبع کی زمینوں سے حاصل ہونے والے منافع سے بڑی مقدار میں خوراک خریدی۔ "اگرچہ خود علی (ع) ایک سادہ غذا پر گزارا کرتے تھے، جو اکثر ثرید (گوشت اور روٹی کا شوربہ) پر مشتمل ہوتی تھی، لیکن جو گوشت وہ خریدتے تھے، وہ آزادانہ طور پر کوفہ کے مسلمانوں میں تقسیم کر دیتے تاکہ وہ اس سے مستفید ہوں۔"
آنتونی اس وصیت کی دو نمایاں خصوصیات پر زور دیتے ہیں:
غلاموں کی آزادی: "یہ وصیت اس لحاظ سے منفرد اور نمایاں ہے کہ اس میں غلاموں کی آزادی کے متعدد احکامات شامل ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حضرت علی (ع) نے وصیت ناموں میں غلاموں کی وسیع پیمانے پر آزادی کی ایک روایت قائم کی، جس پر ان کی کئی نسلوں نے عمل کیا اور اسی طرح بڑی تعداد میں اپنے غلاموں کو آزاد کیا۔" یہ خصوصیت حضرت علی (ع) کی ایک اور وصیت کے اس حصے سے ہم آہنگ ہے، جس میں "ما ملکت ایمانکم" (جو تمہاری ملکیت میں ہوں) کے حقوق کی رعایت کی تاکید کی گئی ہے۔
وراثت میں مساوات: ایک اور منفرد پہلو وہ برابری ہے جو حضرت علی (ع) نے اپنے ان تمام بیٹوں کے درمیان برقرار رکھی، جو آزاد عورتوں یا باندیوں سے پیدا ہوئے تھے۔ رومی اور یہودی قوانین میں، اگر کوئی بچہ کسی غیر آزاد عورت سے پیدا ہوتا تو وہ اپنی ماں کی غلامی کا درجہ وراثت میں حاصل کرتا اور اپنے والد کی وراثت کا حقدار نہیں ہوتا۔ لیکن اس وصیت میں تمام بیٹے آزاد اور یکساں ورثاء قرار دیے گئے ہیں۔/
4273860