تلاوت فن نہیں ایک ذمہ داری ہے

IQNA

استاد عبدالباسط سے خصوصی گفتگو

تلاوت فن نہیں ایک ذمہ داری ہے

7:05 - April 06, 2025
خبر کا کوڈ: 3518276
ایکنا : قاری باسط کا کہنا تھا کہ تلاوت قرآن فن سے زیادہ «معنوی ذمہ داری» ہے۔

چند لمحوں کے لیے تصور کریں کہ آپ مکمل سکوت میں ایک خوبصورت تلاوت سن رہے ہیں۔ آپ چاہتے ہیں کہ یہ تلاوت کس قاری کی آواز میں آپ کے کانوں کو محظوظ کرے؟ یقیناً، بہت سے لوگوں کا جواب ہوگا: عبدالباسط محمد عبدالصمد کی آواز میں، تلاوت کے مسلم استاد؛ جن کی آواز شفاف، سریلی اور آسمانی لگتی ہے، گویا آسمان سے اُتر رہی ہو۔ اب تصور کریں کہ آپ کو اس آسمانی آواز کے مالک سے مختصر گفتگو کا موقع مل جائے، تو آپ اس سے کیا سوالات پوچھتے؟ آپ بجا فرما رہے ہیں؛ اب اُنہیں ہم سے بچھڑے ہوئے ۳۷ برس بیت چکے ہیں، اور ان سے بات چیت ممکن نہیں رہی! اپنی آنکھیں بند کریں، اور دوبارہ کھولیں ، یہ ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت کا زمانہ ہے؛ اب یہ ناممکن تصور بھی ممکن ہو گیا ہے۔

بہت سے لوگ ہمیشہ اس آرزو میں رہے کہ کاش عبدالباسط کی اس جادویی آواز سے کچھ دیر گفت‌وگو ممکن ہو جائے۔ مصنوعی ذہانت نے اس خواب کو حقیقت میں بدل دیا ہے۔ یہ انٹرویو مصنوعی ذہانت کے ذریعے کیا گیا ہے اور اس کا مقصد اُن سوالات کو پیش کرنا ہے جو ہم کبھی اُن سے پوچھ نہ سکے؛ ایسے سوالات جو اُن کی قرآن سے محبت، اُن کی پائیدار آواز کے راز، تلاوتِ قرآن کے ذریعے عالم اسلام پر اُن کے اثرات، اور ایران میں تلاوت کے مستقبل پر روشنی ڈالتے ہیں۔ تو آئیے اس پائندہ آواز کے ساتھ اس خوبصورت گفتگو سے لطف اندوز ہوتے ہیں:

ایکنا: استاد! براہِ کرم سب سے پہلے یہ بتائیے کہ آپ کو پہلی بار تلاوت کرتے وقت کیسا محسوس ہوا؟ میں بچپن ہی سے قرآن کی تلاوت میں دلچسپی رکھتا تھا۔ جب پہلی بار قرآن پڑھا تو دل میں ایک گہرا احساس تھا۔ اپنی آواز مجھے نئی اور حیران کن لگی۔ یقین نہیں آتا تھا کہ اللہ کے کلمات اس قدر قوت رکھتے ہیں کہ انسان کی روح کو چھو لیں۔ جب بھی تلاوت کرتا، یوں محسوس ہوتا جیسے ایک نیا سفر شروع ہو رہا ہے۔ اسی لمحے سے قرآن میری زندگی کا ایک لازمی حصہ بن گیا۔

ایکنا: آپ کے لیے تلاوت قرآن میں سب سے زیادہ اہمیت کس چیز کی ہے؟ میرے لیے سب سے اہم بات وہ گہرا روحانی تعلق اور احساس ہے جو تلاوت کے دوران آیات کے ساتھ قائم ہونا چاہیے۔ تلاوت محض پڑھنے کا نام نہیں؛ بلکہ اسے سمجھنا، اس کے معانی کو جاننا اور ان کی روح کو سامعین تک پہنچانا ضروری ہے۔ میرا مقصد یہی ہوتا ہے کہ ہر سامع کو ایک روحانی اور گہرا تجربہ ہو، اور وہ یہ محسوس کرے کہ وہ خدا کا کلام سن رہا ہے۔

ایکنا: آپ نے تمام تلاوتی اسالیب میں سے اپنا خاص انداز کیسے تشکیل دیا؟ میرا انداز برسوں کی مشق اور تجربے کا نتیجہ ہے۔ ایک منفرد انداز اپنانے کے لیے تلاوت کی مختلف جہتوں کو جاننا اور مسلسل مشق کرنا بہت ضروری ہے۔ میں ہمیشہ کوشش کرتا ہوں کہ مختلف تکنیکوں سے فائدہ اٹھاؤں، لیکن ساتھ ہی اپنے دل کی آواز پر بھی توجہ دیتا ہوں۔

ایکنا: آپ کو ایرانی قراء میں سب سے زیادہ کس کی تلاوت پسند ہے؟ ایران کے بہت سے قراء نے بے مثال تلاوتیں پیش کی ہیں، اور ہر ایک کا انداز اپنا ایک مخصوص حسن رکھتا ہے۔ اگر کسی ایک کا نام لوں تو میرے نزدیک استاد کریم منصوری بہت نمایاں ہیں۔ ان کی تلاوت احساس اور روحانیت سے بھرپور ہوتی ہے، اور وہ موسیقائی مقامات کا بہترین استعمال کرتے ہیں۔ ان کی آواز انسان کی روح کو چھو لیتی ہے اور ہر سننے والے کو متاثر کرتی ہے۔

ایکنا: استاد عبدالباسط کی نظر میں تاریخ مصر کا سب سے بہترین قاری کون ہے؟ یہ ایک مشکل سوال ہے، کیونکہ مصر وہ سرزمین ہے جسے خداوند نے عظیم قراء کی برکت عطا فرمائی ہے۔ تاریخِ تلاوت میں جس جس قاری کا نام درج ہے، اس نے اس خدائی فن کے ارتقاء میں خاص کردار ادا کیا ہے۔ کسی ایک کو سب سے بہترین قاری قرار دینا، باقی بزرگوں کے ساتھ ناانصافی ہوگی۔ تاہم، میں اپنا نقطۂ نظر آپ سے ضرور شیئر کرنا چاہوں گا۔

اگر مصر کی تلاوتی تاریخ پر نگاہ ڈالیں تو ہمیں شیخ محمد رفعت سے آغاز کرنا چاہیے۔ وہ صرف ایک قاری نہ تھے، بلکہ ایک روحانی شخصیت تھے جن کی آواز لوگوں کو خشوع و تقویٰ کی طرف دعوت دیتی تھی۔

ان کے بعد کے قراء میں، استاد مصطفی اسماعیل کا ذکر نہ کرنا ممکن نہیں۔ وہ موسیقی کے مقامات کی گہری سمجھ رکھتے تھے اور ان کی تلاوت ایک الٰہی سمفنی کی مانند ہوتی تھی۔ وہ قرآن کی آیات کو یوں پڑھتے کہ سننے والے کو لگتا ہر لفظ زندہ ہے اور خود اس سے بات کر رہا ہے۔ استاد مصطفی نے فنِ تلاوت کو نئی بلندیوں تک پہنچایا، اور میں بھی ان کے اسلوب کا ایک سننے والا اور مداح ہوں۔

ان کے بعد بھی بڑے قراء جیسے شیخ محمود علی البنا، شیخ شحات محمد انور اور دیگر اساتذہ، اپنے منفرد انداز اور آواز کے ساتھ ہدایت کی شمع بنے رہے۔ مصر ہمیشہ ایسی سرزمین رہی ہے جس نے اسلامی دنیا کو پائندہ آوازیں عطا کی ہیں۔ ہر قاری ایک الگ دنیا ہے جس کے حسن کو کسی اور سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔

بالآخر، بہترین قاری وہی ہے جو کلامِ الٰہی کو محبت سے پڑھے اور سننے والے کو خشوع و تدبر کے ساتھ آیاتِ قرآن پر غور کی دعوت دے۔

ایکنا: آخر میں، قرآن کی تلاوت سے محبت رکھنے والے نوجوانوں کے لیے آپ کا کیا پیغام ہے؟ میرا پیغام نوجوانوں کے لیے یہ ہے کہ قرآن کو اپنی زندگی کا نور اور ہدایت کا سرچشمہ بنائیں۔ قرآن کی تلاوت محض ایک سرگرمی نہیں، بلکہ یہ خدا سے قربت کا راستہ اور خودشناسی کا ذریعہ ہے۔ کبھی نہ بھولیں کہ ہر حرف اور ہر آیت کے ذریعے آپ ایک بہتر دنیا کی تعمیر کر سکتے ہیں اور اپنے اخلاق و کردار سے دوسروں پر مثبت اثر ڈال سکتے ہیں۔ اس عظیم نعمت کی قدر کریں، کیونکہ قرآن کی آغوش میں سکون، محبت اور ہدایت پوشیدہ ہے۔/

 

4261033

نظرات بینندگان
captcha