ایکنا نیوز، الجزیرہ ویب سائٹ نے اپنی رپورٹ کے دوسرے حصے میں "سلک روڈ لائبریری" (شاہراہ ریشم) کے بانی نوح احمد کے نظریات اور کوششوں کو بیان کیا ہے:
نوح احمد نے چین میں نسلوں تک علم منتقل کرنے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا: "چینی مسلمانوں بلکہ تمام چینی عوام کے لیے علمی و فکری رابطہ بے حد اہم ہے۔ اسی لیے 'سلک روڈ لائبریری' کی ٹیم نے اپنی اشاعتوں کو ایک آزاد یونیورسٹی کی شکل دینے کی کوشش کی ہے، تاکہ عربی، اسلامی اور چینی ثقافتوں کے درمیان کوئی دیوار نہ ہو۔ اس طرح اسلام، اس کی تہذیب، تاریخ، اسلامی مفاہیم اور عربی ثقافت کو غیر مسلموں کے لیے بھی قابل فہم بنایا جا سکتا ہے۔"
سال 2022 میں، اس لائبریری کی بیجنگ، شنگھائی، نِنگشیا اور چِنگھائی میں چار شاخیں تھیں، لیکن حالیہ برسوں میں کورونا وائرس اور اقتصادی حالات کی وجہ سے یہ شاخیں بند کر دی گئیں۔ اب کتابیں سوشل میڈیا اور سرکاری اشاعتی اداروں کے ذریعے فروخت کی جاتی ہیں۔
نوح احمد کا کہنا ہے: "آج چین اور دنیا میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ وہ تحریری کلام جو صدیوں بلکہ ہزاروں سال پہلے لکھا گیا تھا، دوبارہ اپنی اہمیت حاصل کر رہا ہے۔ لہٰذا پرانی کتابوں کی اشاعت علم کی منتقلی کا ایک کم خرچ اور مؤثر ذریعہ ہے، اور یہ طویل مدت میں تہذیبوں اور ثقافتوں کے تبادلے کا وسیلہ بنی رہتی ہے۔"
اس ثقافتی و علمی اقدام کی اہمیت اس سے بھی واضح ہوتی ہے کہ ان کتابوں کے خریدار صرف مسلمان نہیں بلکہ عام چینی عوام بھی ہیں۔ ان کتابوں نے چینی محققین، سیاستدانوں، ماہرین اور سفارتکاروں کو عرب و اسلامی ثقافت کے قریب آنے میں مدد دی ہے، جو کہ آج چین کی حکومت کے لیے بھی ایک اہم ترجیح بن چکا ہے۔
منصوبے کے پہلے مرحلے میں توجہ عربی ادب اور کہانیوں کی چینی ترجمہ پر دی گئی تاکہ عربی ثقافت سے تعارف کے لیے راستہ ہموار کیا جا سکے۔ پچھلے دس برسوں میں، 'سلک روڈ لائبریری' کے تحت 80 سے زائد کتابیں شائع کی گئیں۔
ترجمہ شدہ اہم کتابوں میں فارسی ادب کا مشہور شاہکار گلستانِ سعدی شامل ہے، جسے شیخ محمد مکین نے چینی زبان میں ترجمہ کیا — وہی معروف مسلمان مترجم جنہوں نے قرآن کا پہلا چینی ترجمہ بھی کیا تھا اور بیجنگ یونیورسٹی میں عربی اسٹڈیز فیکلٹی کے بانی تھے۔
سیرت النبی (ص) پر لکھی گئی محمد حسین ہیکل کی معروف کتاب بھی چینی میں ترجمہ کی گئی ہے، جسے اب تک پانچ بار دوبارہ شائع کیا جا چکا ہے۔ اسی طرح، حضرت علیؑ کی سوانح پر ڈاکٹر علی الصلابی کی تصنیف بھی ترجمہ کی گئی ہے۔
لائبریری نے چینی زبان سے عربی میں بھی ترجمے کیے ہیں، جن میں چھ کتابیں شامل ہیں جو حکمت، فلسفہ اور تاریخ پر مبنی ہیں، جیسے چانگشو، لاؤتسے اور کنفیوشس کے مکالمات۔
منصوبے کے دوسرے مرحلے میں ۲۰۰ کے قریب کتابوں کی فہرست تیار کی گئی ہے جن کا مقصد عرب، اسلامی اور چینی ثقافتوں کے درمیان گفتوشنید اور مفاہمت کو فروغ دینا ہے۔ ان میں سے بیشتر کتابوں کا ترجمہ اور تدوین مکمل ہو چکا ہے اور 2025 کے آغاز سے ان کی اشاعت شروع ہو جائے گی۔
ان میں سب سے اہم مجموعہ صحاحِ ستہ کا چینی ترجمہ ہے، جو ۳۸ جلدوں پر مشتمل ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ اہل سنت کے ان اہم کتبِ حدیث کو چینی زبان میں ترجمہ کیا گیا ہے۔ ہر صفحے پر عربی متن اور اس کا چینی ترجمہ ساتھ دیا گیا ہے۔
ان کتابوں کے مترجم موسیٰ یو تونگ جین ہیں جو نینگشیا صوبے کے ایک امام جماعت ہیں۔ انہوں نے سخت مالی اور جسمانی حالات میں یہ کارنامہ انجام دیا۔
تاریخی کتابوں میں اموی اور عباسی حکومتوں پر محمد خضر بک کی دو کتابیں، زنگی، فاطمی، سلجوقی اور عثمانی حکمرانی پر ڈاکٹر علی الصلابی کی چار کتابیں اور صفویہ حکومت پر محمد سهیل طقوش کی کتاب شامل ہیں۔
لائبریری ایک ہزار صفحات پر مشتمل انسائیکلوپیڈیا بھی شائع کرنے جا رہی ہے جو نبی اکرم ﷺ کی بیویوں اور بیٹیوں کی سوانح پر مبنی ہے۔ یہ مشہور کتاب عائشہ عبدالرحمن بنت الشاطئ کی تصنیف ہے، جسے ان کی شاگرد فریده وانگ فو نے چینی زبان میں ترجمہ کیا۔
لائبریری نے فقہی کتابوں کو بھی شامل کیا ہے، جن میں امام ابوحنیفہؒ کے شاگرد، قاضی ابویوسف انصاریؒ کی مشہور کتاب الخراج بھی چینی زبان میں ترجمہ کی گئی ہے۔
اسی طرح، ابن سینا کی مشہور طبی کتاب "قانون" بھی ترجمے کے مراحل میں ہے، جو ۵ جلدوں پر مشتمل ہے اور پانچ مترجمین نے آٹھ سال میں اس پر کام کیا۔ امید ہے یہ کتاب چین میں طب اور طبِ اسلامی کے طالب علموں کے لیے بہت مفید ہوگی۔
آئندہ مرحلے میں لائبریری عربی زبان، فقہ، اصول، علومِ حدیث، تفسیر، علومِ قرآن، فلسطین کی تاریخ اور فلسطینی مسئلے پر مبنی علمی و ادبی کتابوں کا تیسرا سلسلہ شائع کرے گی، تاکہ چینی دانشور، اساتذہ اور محققین ان کتابوں سے استفادہ کر سکیں — خاص طور پر موجودہ حالات میں جب فلسطین کو صیہونی مظالم کا سامنا ہے۔/
4262115