ایکنا نیوز- النصر نیوز کے مطابق الجزائر کے صوبہ الوادی میں قرآنی مدارس کے اساتذہ اب بھی قرآن کریم کو حفظ کروانے کے لیے روایتی طریقے اپنائے ہوئے ہیں، خاص طور پر چھوٹے بچوں اور ضعیف العمر نابینا افراد کے ساتھ جو پڑھنے اور الفاظ سمجھنے کی محدود صلاحیت رکھتے ہیں۔
شیخ البشیر عطیلی، جو شہر البیاضہ میں واقع مسجد تیجانیہ کے قرآنی مدرسے میں قرآن کے استاد ہیں، نے اپنے طلبہ کو اس قدیم طرز تعلیم سے اس حد تک مانوس کر دیا ہے کہ وہ قرآن کو حفظ کرنے کے لیے اسی طریقے کو پسند کرتے ہیں۔ وہ گزشتہ تیس برسوں سے اسی طریقے سے قرآن کے حفاظ تیار کر رہے ہیں۔ وہ ڈکٹیٹیشن اور تختی پر مشق کے طریقے سے تعلیم دیتے ہیں، چاہے وہ صمغ سے بنے قلم اور درخت کی شاخوں سے بنے قلم سے ہو یا جدید پنسل یا بال پوائنٹ سے۔
شیخ البشیر کا کہنا ہے کہ ان کا قرآن حفظ کروانے کا سفر بچپن سے شروع ہوا، جب ان کے والد نے انہیں حفظ قرآن سکھانا شروع کیا۔ ان کے والد کی خواہش تھی کہ ان کا بیٹا حافظ قرآن بنے۔ 1980 کی دہائی کے آخر میں، ان کے والد نے انہیں ایک قرآنی مدرسے میں داخل کروایا جہاں تعلیم کا طریقہ مکمل طور پر روایتی تھا اور صرف تختی اور صمغ کا قلم دستیاب تھا۔ حفظ قرآن کی تربیت اساتذہ کی زبان سے ڈکٹیٹ کرنے سے ہوتی تھی۔
اسی انداز میں، "سیدی البشیر" (جیسا کہ ان کے شاگرد انہیں پکارتے ہیں) نے نوجوانی میں قرآن مجید مکمل حفظ کر لیا۔ پھر 1994 میں وہ مسجد تیجانیہ کے حاج بن سالم مسجد میں شامل ہو گئے اور آج بھی وہاں قرآن پڑھا رہے ہیں اور تقریباً 250 طلبہ و طالبات کو پڑھاتے ہیں۔
شیخ البشیر عطیلی کا کہنا ہے کہ وہ خاص طور پر 15 سال سے کم عمر بچوں کو روزانہ مدرسہ لانے اور اپنی تحریر میں تختی پر لکھنے کی عادت ڈالنے پر زور دیتے ہیں، چاہے وہ روایتی قلم نی ہو، الداویہ (یعنی صمغ کا برتن) ہو یا کوئی اور قلم ہو۔
ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ یہ طریقہ وقت طلب اور محنت طلب ہے، لیکن یہ الفاظ کو ذہن نشین کرانے، ان کے معنی پر غور کرنے اور حفظ کے لیے بہت مؤثر ہے۔ اس طریقے کی خوبی یہ ہے کہ اس میں طالب علم کا دماغ اور ہاتھ ایک ساتھ ایک ہی کام پر مرکوز ہوتے ہیں، جس سے توجہ میں اضافہ ہوتا ہے۔
البشیر مزید کہتے ہیں کہ یہ طریقہ صرف قرآن یاد رکھنے میں ہی نہیں بلکہ طلبہ کو قرآنی خطاطی سکھانے میں بھی مدد دیتا ہے، جو عام تحریر سے مختلف ہوتی ہے۔ اس سے الفاظ کے صحیح تلفظ کو بھی ذہن نشین کیا جاتا ہے، جو روزمرہ بول چال اور لکھائی سے مختلف ہو سکتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ان کے اکثر شاگرد ابتدائی درجے کے بچے ہیں اور روایتی طریقہ ان کی تحریر کو بہتر بناتا ہے، حروف یاد رکھنے میں مدد دیتا ہے، اور انہیں سکھاتا ہے کہ وہ جو کچھ حفظ کرتے ہیں، اسے لکھ بھی سکیں اور ہجے بھی کر سکیں۔ ان کے مطابق اس طریقے کے نتائج نہ صرف دینی بلکہ دنیاوی تعلیم میں بھی مثبت اثرات ڈالے ہیں۔ اکثر شاگرد خوبصورت اور مربوط تحریر، فصیح زبان اور املا کی درستگی میں نمایاں ہوتے ہیں۔
شیخ البشیر عطیلی نے یہ بھی کہا کہ وہ جدید طریقہ تعلیم کے منکر نہیں، مگر وہ ہمیشہ تحریری مشق اور ڈکٹیٹ کے طریقہ تدریس پر زور دیتے ہیں کیونکہ یہ ہر طالب علم کے لیے بالخصوص حفظ کرنے والوں کے لیے بے حد ضروری ہے۔ ان کے مطابق یہ طریقہ طالب علم کو سننے، لکھنے، خطاطی اور یادداشت جیسی کئی صلاحیتوں سے آراستہ کرتا ہے۔ البتہ وہ یہ بھی مانتے ہیں کہ جدید ٹیکنالوجی کے فوائد سے انکار نہیں کیا جا سکتا اور اگر وہ قرآن کی تعلیم میں معاون ہو تو اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔
مدرسہ کے چند طلبہ کے مطابق، ابتدا میں وہ تختی پر لکھنے اور ڈکٹیٹ کی کلاسوں سے بچنے کی کوشش کرتے تھے، لیکن بعد میں وہ اس بات پر قائل ہو گئے کہ یہ طریقہ اگرچہ محنت طلب ہے مگر انتہائی فائدہ مند ہے۔ انہوں نے بتایا کہ مدرسے کا ماحول مکمل طور پر روایتی ہے، حتیٰ کہ سزا دینے کا انداز بھی پرانا ہے: لکڑی سے مارنا یا بار بار الفاظ لکھنے پر مجبور کرنا۔ اس کے باوجود وہ شیخ البشیر کی کلاسوں میں مستقل آتے ہیں۔ بعض طلبہ نے بتایا کہ وہ یونیورسٹی کی تعلیم مکمل کرنے اور ملازمت میں جانے کے بعد بھی شیخ کی کلاسوں میں آتے رہے ہیں۔/