ایکنا نیوز کی رپورٹ کے مطابق، معروف ملائیشی مصنف و دانشور محمد فیصل موسی، جنہیں "فیصل تہرانی" کے نام سے جانا جاتا ہے، نے جنگ ایران و اسرائیل (بارہ روزه جنگ) پر ایک تجزیاتی مضمون "آیتالله خامنہای کا اثر سمجھنا" کے عنوان سے تحریر کیا۔ یہ مضمون 24 جون 2025 کو جنگ کے اختتام کے بعد ملائیشیا کے میڈیا میں شائع ہوا۔
انہوں نے لکھا ہے : بارہ روزہ جنگِ کے بعد آیتالله خامنہای کا نام مغرب، بالخصوص نسل Z میں غیرمعمولی توجہ کا مرکز بن گیا ہے۔ مغربی میڈیا کی طرف سے ان کے بارے میں پھیلائے گئے منفی تاثر کے برعکس، اب انہیں ایک انقلابی، دلیر اور صہیونیت کو کچلنے والے رہنما کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔"
فیصل کے مطابق، اس جنگ میں ایران کی سب سے بڑی کامیابیوں میں سے ایک یہ تھی کہ آیتالله خامنہای کا مقام اس قدر بلند ہوا کہ وہ ایک نیم مقدس شخصیت کے طور پر دنیا میں متعارف ہونے لگے، جن کے برابر آنا کسی کے لیے آسان نہیں۔
انہوں نے مزید لکھا کہ اس جنگ کے بعد، آیتالله خامنہای کی پرانی سوشل میڈیا پوسٹس دوبارہ منظر عام پر آئیں اور انہیں بڑے پیمانے پر شیئر کیا گیا۔
یہ وہی بزرگ رہنما ہیں جن کی حذف ہونے کی آرزو اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے کی، جن کے قتل کی کوششیں تل ابیب کی طرف سے جاری ہیں، جنہیں ڈونلڈ ٹرمپ نے کبھی مذاق کا نشانہ بنایا، اور جن کا مقام اردگان نے عرصے سے حاصل کرنے کی تمنا کی ہے۔
مغربی میڈیا بارہا ان کے ممکنہ جانشینوں پر قیاس آرائیاں کرتا رہا ہے، لیکن سوال یہ ہے: آیتالله خامنہای کون ہیں؟
فیصل نے لکھا ہے : آیتالله خامنہای، جنہیں ایرانی عوام "رہبر" یا "سپریم لیڈر" کے طور پر جانتے ہیں، 1939 میں مشہد میں پیدا ہوئے۔ وہ عالم دین آقا جواد خامنہای کے دوسرے بیٹے ہیں۔ انہوں نے 18 سال کی عمر میں نجف جا کر آیتالله حسین بروجردی اور آیتالله روحالله خمینی جیسے عظیم اساتذہ سے علوم دینیہ حاصل کیے اور تیزی سے علمی مراتب طے کیے۔
1960 اور 1970 کی دہائیوں میں انہوں نے امریکہ کے زیر اثر پہلوی حکومت کے خلاف تحریکوں میں بھرپور شرکت کی، جس کے نتیجے میں انہیں گرفتاری کا سامنا کرنا پڑا۔
1979 میں اسلامی انقلاب کے بعد وہ شورای انقلاب کے رکن بنے، پھر وزارت دفاع کے نائب اور امام جمعۂ تہران مقرر ہوئے۔
1982 میں صدر محمدعلی رجائی کی شہادت کے بعد آیتالله خامنہای صدرِ ایران منتخب ہوئے۔ اس دوران ان پر بھی قاتلانہ حملہ ہوا جس سے ان کے ہاتھ کو نقصان پہنچا۔
ایران-عراق جنگ (1980–1988) کے دوران وہ محاذ جنگ پر فوجی قیادت میں سرگرم رہے، اور سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی قیادت سنبھالی۔
1989 میں آیتالله خمینی کی وفات کے بعد، مجلس خبرگان (88 دینی علما پر مشتمل ادارہ) نے انہیں رہبر معظم منتخب کیا۔
وہ نہ صرف سیاسی رہنما بلکہ مرجع تقلید بھی ہیں، اور ایران سے باہر بھی ان کے فقہی نظریات کی پیروی کی جاتی ہے۔
فیصل کے مطابق، یہی دوہرا مقام (دینی و سیاسی) انہیں صہیونی سازشوں کے لیے خطرناک حد تک مزاحم بناتا ہے، اور ان کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی پوری دنیا کے شیعہ مسلمانوں میں شدید ردعمل کا باعث بن سکتی ہے۔
انہوں نے لکھا کہ یہ جنگ، جو عید غدیر سے شروع ہو کر محرم سے دو دن پہلے ختم ہوئی، نہ صرف شیعہ تاریخ بلکہ عالمی سیاست کا بھی اہم ترین واقعہ بن چکی ہے۔
"2025 ایک تاریخی سال ہے، جس میں پہلی بار کسی ملک نے بیک وقت اسرائیل اور امریکہ کو شکست دی۔ آج تک کوئی عرب یا ترک رہنما ایسا مقام حاصل نہ کر سکا جو آیتالله خامنہای کو حاصل ہوا۔/
4291589