ایکنا نیوز- ٹی آر ٹی نیوز کے مطابق بھارت نے بغیر کسی عدالتی حکم کے سینکڑوں افراد کو بنگلادیش میں ملک بدر کر دیا ہے، جس پر انسانی حقوق کے کارکنوں نے شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اسے نسلی امتیاز پر مبنی غیرقانونی اخراج قرار دیا ہے۔
بھارتی حکام کا کہنا ہے کہ اخراج کیے گئے افراد "غیرقانونی تارکین وطن" ہیں۔ واضح رہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی ہندو قوم پرست حکومت ایک سخت گیر امیگریشن پالیسی پر عمل پیرا ہے، بالخصوص بنگلہ دیشی مسلمانوں کے خلاف۔ بھارتی حکام ان تارکین وطن کو "ڈیمک"اور "درانداز" (جاسوس) جیسے الفاظ سے تعبیر کرتے ہیں۔
یہ اقدامات بھارت میں تقریباً 20 کروڑ مسلمانوں، خاص طور پر بنگالی بولنے والے باشندوں میں سخت تشویش پیدا کر چکے ہیں۔ بنگالی زبان بھارت کے مشرقی علاقوں اور بنگلادیش میں بڑے پیمانے پر بولی جاتی ہے۔
بھارت اور بنگلادیش کے تعلقات حالیہ مہینوں میں کشیدہ ہوئے ہیں، خاص طور پر 2024 کی بغاوت کے بعد جس کے نتیجے میں وزیر اعظم شیخ حسینہ (جو بھارت کی قریبی اتحادی تھیں) کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔ بنگلادیش تین اطراف سے بھارت سے متصل ہے، اور یہ کشیدگی دونوں ممالک کے درمیان سرحدی اور سیاسی تناؤ کا باعث بنی ہے۔
اس کے باوجود، بھارت نے 22 اپریل کو مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے حملے کے بعد داخلی سیکیورٹی کریک ڈاؤن میں مزید شدت پیدا کی ہے۔ اس حملے میں زیادہ تر ہندو سیاحوں سمیت 26 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ بھارت نے اس حملے کا الزام پاکستان پر عائد کیا، تاہم اسلام آباد نے اس الزام کو مسترد کر دیا۔
اس واقعے کے بعد، دونوں ممالک کے درمیان چار روزہ فوجی جھڑپیں ہوئیں، جن میں 70 سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔
بھارتی حکومت نے ملک بھر میں ایک بے مثال سیکیورٹی مہم کا آغاز کیا، جس کے دوران ہزاروں افراد کو گرفتار کیا گیا اور بہت سے افراد کو زبردستی سرحد پار بنگلادیش بھیج دیا گیا۔
بنگلادیشی حکام کا کہنا ہے کہ بھارت نے مئی سے اب تک 1600 سے زائد افراد کو سرحد سے دھکیل دیا ہے، جبکہ بھارتی میڈیا کا کہنا ہے کہ یہ تعداد 2500 تک پہنچ سکتی ہے۔
بنگلادیشی بارڈر فورس نے اعلان کیا ہے کہ انہوں نے تقریباً 100 افراد کو واپس بھارت بھیج دیا ہے، کیونکہ تحقیقات سے یہ ثابت ہوا کہ وہ بھارتی شہری تھے۔/