ایکنا نیوز- امام جعفر صادق علیہ السلام نے سورہ اسراء کی اس آیت: «ثُمَّ رَدَدْنا لَکُمُ الْکَرَّةَ عَلَیْهِمْ» (ترجمہ: "پھر ہم نے تمہیں ان پر دوبارہ غلبہ عطا کیا" – سورہ اسراء، آیت 6) کی تفسیر میں فرمایا:
"یہ آیت امام حسین علیہ السلام کے ظہور اور ان کی رجعت کی طرف اشارہ کرتی ہے، جب وہ اپنے 70 وفادار ساتھیوں کے ہمراہ دوبارہ دنیا میں آئیں گے۔ ان کے سروں پر سنہری خود (کپڑوں کے ساتھ مخصوص زرّیں خود) ہوں گے۔ وہ دو طرف سے آئیں گے اور لوگوں کو اطلاع دیں گے کہ یہ حسین بن علی ہیں جو واپس آئے ہیں تاکہ کوئی مؤمن ان کی شخصیت کے بارے میں شک یا تردید میں نہ پڑے۔ لوگوں کو یقین دلایا جائے گا کہ وہ نہ دجال ہیں اور نہ ہی شیطان۔ اس وقت بھی امام زمانہ، حضرت حجّت بن الحسن (عجل اللہ تعالیٰ فرجه الشریف) موجود ہوں گے۔ جب مؤمنوں کے دلوں میں یہ بات ثابت ہو جائے گی کہ یہ امام حسین علیہ السلام ہی ہیں، تو امام زمانہ کا وقتِ وفات آپہنچے گا۔ اس وقت امام حسین علیہ السلام ہی انہیں غسل دیں گے، کفن پہنائیں گے، حنوط کریں گے اور دفن کریں گے۔ کیونکہ وصی (جانشین) کی تجہیز و تکفین صرف اور صرف دوسرا وصی اور امام ہی کر سکتا ہے۔"
امام حسین علیہ السلام کی رجعت: اہل بیتؑ کے پیروکاروں کا ایک اہم عقیدہ
امام حسین علیہ السلام کی رجعت اور ان کے وفادار اصحاب کا واپسی کے ساتھ آنا، مکتب اہل بیت علیہم السلام کے پیروکاروں کا ایک اعتقادی عقیدہ ہے جو کئی دینی اور عملی اثرات کا حامل ہے۔
دوسرے لفظوں میں، جو مؤمن امام حسین علیہ السلام کی رجعت پر جتنا پختہ یقین رکھتا ہے، اتنا ہی وہ اپنے کردار و عمل کی اصلاح پر مائل ہوتا ہے۔ کیونکہ اسے یہ شعور حاصل ہوتا ہے کہ امام دوبارہ آئیں گے، اس لیے وہ دشمنان اہل بیت کے رویّوں سے دوری اختیار کرتا ہے اور اہل بیت کے اقدار کا پابند بنتا ہے۔ شاید اسی کوشش کے نتیجے میں وہ اس عظیم رجعت کے وقت امام حسین علیہ السلام کے لشکر کا حصہ بننے کا شرف حاصل کر لے۔