جرمن مستشرق کا تاریکی سے روشنی تک کا سفر

IQNA

جرمن مستشرق کا تاریکی سے روشنی تک کا سفر

6:33 - September 28, 2025
خبر کا کوڈ: 3519223
ایکنا: آلفریڈ ہوبر، جرمن مستشرق جنہوں نے اپنی تحقیق و مطالعے کے ذریعے قرآن کریم اور دین اسلام کی حقیقت کو پہچانا اور اسلام قبول کیا، یہ سفر ’’تاریکی سے روشنی کی طرف قدم بڑھانے‘‘ کے مترادف تھا۔

ایکنا نیوز- الجزیرہ نیوز چینل کی رپورٹ کے مطابق، جرمنی میں سولہویں صدی عیسوی سے قرآن کریم کو خاص اہمیت حاصل رہی۔ صدیوں تک مستشرقین اور محققین نے عربی زبان سیکھ کر قرآن پر تحقیق کی، تاہم سترہویں صدی میں قرآنی تراجم مذہبی و سیاسی رجحانات کے زیرِ اثر آ گئے اور محض چند تراجم ہی خالص علمی بنیادوں پر تیار کیے گئے۔

مغربی جامعات میں کئی دہائیوں تک سب سے مؤثر علمی کام مشہور مستشرق تھیوڈور نولڈکے کی کتاب ’’تاریخ القرآن‘‘ رہی، جو مغربی مطالعات کی بنیاد بنی۔

اس کے برعکس، حالیہ دہائیوں میں موضوعی تراجم سامنے آئے جن میں بعض مترجمین نے قرآن کے طویل مطالعے کے بعد اسلام قبول کیا۔ ان کے تراجم میں لسانی دقت کے ساتھ گہرا ذاتی تجربہ بھی جھلکتا ہے۔ مشہور مثالوں میں زیگرید ہونکے اور آنے ماری شمل شامل ہیں۔

انہی میں ایک نمایاں نام ڈاکٹر آلفریڈ ہوبر کا ہے جن کی داستان نہایت دلچسپ ہے۔

ابتدائی زندگی اور تلاشِ حقیقت

آلفریڈ ہوبر آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں پیدا ہوئے اور ایک مذہبی کیتھولک ماحول میں پرورش پائی۔ ان کے والدین نے انہیں راہبانہ زندگی کے لیے تیار کیا اور وہ پادری بن گئے۔ لیکن وہ بنیادی عقائد کے حوالے سے شکوک کا شکار رہے اور ہمیشہ حقیقت کی تلاش میں رہے۔

بچپن ہی سے انہیں ایمان، ادیان کے تنوع اور ان کے باہمی تضادات نے اپنی طرف متوجہ کیا۔ 18 برس کی عمر میں انہوں نے سیاحت کا آغاز کیا۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ روم، جو عیسائیت کا مرکز ہے، گئے۔ اس کے بعد یونان اور ترکی پہنچے جہاں انہیں پہلی بار اسلام سے براہِ راست واسطہ پڑا۔

وہ کہتے ہیں: پھر میں قونیہ گیا اور مولانا جلال الدین رومی کے مزار پر پہنچا، جہاں مجھے ناقابلِ بیان روحانی سکون حاصل ہوا۔

آلفرد هوبر؛ شرق‌شناس آلمانی که به حقیقت قرآن دست یافت
 

 

مشرقی سفر اور نئی زندگی

ستر کی دہائی میں ہوبر نے مشرق کا سفر شروع کیا۔ وہ شام، اردن اور پھر قدس گئے۔ مذہبی متون کو اصل زبان میں پڑھنے کے شوق نے انہیں عبرانی، یونانی، لاطینی اور سنسکرت سیکھنے پر مجبور کیا۔ بعد ازاں وہ بھارت گئے اور بدھ مت سے متعارف ہوئے۔ وہاں ایک قریب المرگ تجربہ انہیں ’’دوبارہ جنم‘‘ کی طرح محسوس ہوا۔

اصل تبدیلی تاج محل میں آئی۔ ہوبر کے بقول مجھے نہیں معلوم کیا ہوا، لیکن وہاں سکون اور حسن نے مجھے گھیر لیا۔ میں نے محسوس کیا جیسے جنت میں ہوں۔ اس لمحے مجھے یقین ہوا کہ اسلام ہی میری روح کا انتخاب ہے۔ نہ کیتھولک اور نہ ہندو مت، کوئی بھی دین وہ نہیں جو میں چاہتا تھا۔ اسلام ہی وہ دین ہے جسے میری روح نے چُنا۔

وہ مزید کہتے ہیں: مغرب میں انسان عموماً اسلام سے نفرت کے ساتھ پروان چڑھتا ہے، جسے میڈیا اور صہیونی پروپیگنڈا مزید تقویت دیتے ہیں۔ میڈیا اسلام کو دہشت گردی سے جوڑ کر پیش کرتا ہے اور فلسطین کے معاملے پر ہمیشہ حقیقت کو الٹ دکھایا جاتا ہے۔ میرے نزدیک حل ’عربوں کی موجودگی‘ میں ہے۔

آلفرد هوبر؛ شرق‌شناس آلمانی که به حقیقت قرآن دست یافت

 

قرآن سے وابستگی اور ترجمہ

عربی سیکھنے کے بعد ہوبر کو قرآن کے متن اور تراجم میں بنیادی فرق کا احساس ہوا۔ وہ کہتے ہیں: قرآن کا ترجمہ ناممکن ہے کیونکہ عربی مقدس زبان ہے اور قرآن ایک الٰہی نص ہے۔ جو کچھ بھی لکھا جاتا ہے وہ صرف معانیِ قرآن ہیں، خود قرآن نہیں۔

وہ مزید کہتے ہیں: جب میں نے پہلی بار قرآن کی تلاوت کی تو اس کا عاشق ہو گیا کیونکہ میں خود شاعر بھی تھا۔ میں نے قرآن کو ایک نہایت خوبصورت زبان پایا۔

اس گہرے تعلق نے انہیں الازہر یونیورسٹی سے وابستہ کر دیا، جہاں وہ مصر کی وزارتِ اوقاف کے ایک بڑے پروجیکٹ سے جُڑے۔ یہ پروجیکٹ 13 سال تک جاری رہا جس میں قرآن کے مفاہیم کا ترجمہ شامل تھا۔

اسلام قبول کرنے کا لمحہ

سن 1980 میں استنبول میں ہوبر نے اسلام قبول کیا۔ وہ اسے اپنی زندگی کا "فیصلہ کن لمحہ" قرار دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: میں اپنے ایک دوست کے ساتھ بحث کر رہا تھا۔ بات ختم ہوئی تو اس نے کہا: آلفریڈ، تم مسلمان ہو۔ تمہاری ساری باتیں اسلام کی گواہی دیتی ہیں۔ میں حیران ہوا۔ اس نے کہا: آؤ مسجد چلتے ہیں۔ اور اسی وقت میں نے شہادتین پڑھ لیں۔

وہ اپنے سفر کو یوں بیان کرتے ہیں: میں اس طویل سفر کو ایک جملے میں سمیٹ سکتا ہوں: میں تاریکی سے روشنی کی طرف چل پڑا۔

 

4305147

ٹیگس: جرمن ، اسلام ، قران
نظرات بینندگان
captcha