
ایکنا نیوز- قرآنِ کریم کی دیگر آیات میں بھی "عدوان میں تعاون" کا تصور بیان ہوا ہے۔ مثال کے طور پر، رسولِ اکرمؐ کے خلاف سازش یا دشمنی میں شریک ہونا عدوان کی ایک قسم ہے، جیسا کہ فرمایا گیا: «وَإِنْ تَظَاهَرَا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلَاهُ وَجِبْرِيلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمَلَائِكَةُ بَعْدَ ذَلِكَ ظَهِيرٌ» (التحریم: 4) یعنی: "اگر تم دونوں (ازواجِ نبیؐ) رسول کے خلاف ایک دوسرے کی مدد کرو، تو جان لو کہ خدا، جبرئیل، نیک مؤمن (یعنی علی بن ابی طالبؑ) اور فرشتے سب نبیؐ کے مددگار ہیں۔"
اسی طرح قرآن کریم نے نزاع و اختلاف سے بھی منع فرمایا ہے، کیونکہ اختلاف و تنازعہ امت کی قوت کو کمزور کرتا اور اس کی عزت و شوکت کو ختم کر دیتا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: «وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ وَاصْبِرُوا إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ» (الأنفال: 46) یعنی: اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو، اور آپس میں جھگڑا نہ کرو، ورنہ تم کمزور پڑ جاؤ گے اور تمہاری ہیبت جاتی رہے گی، اور صبر سے کام لو، بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
افرادِ معاشرہ کے درمیان تعاون و ہمکاری اسی وقت قائم ہو سکتی ہے جب ان کے دلوں میں کینہ، حسد اور دشمنی نہ ہو، اور وہ غیبت جیسے اخلاقی عیوب سے پاک ہوں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تعاون ایک ایسی اخلاقی قوت ہے جو سماجی فضائل کو مضبوط کرتی ہے، جب کہ رذائلِ اخلاقی تعاون اور اتحاد کو کمزور کر دیتے ہیں۔
فقہی احکامِ واجب و مستحب میں بھی اکثر تعاون اور اجتماعی ہمبستگی کو فروغ دینے کی حکمت پوشیدہ ہے۔ فقہا نے بعض فقہی مسائل میں آیتِ تعاون کو بنیاد بنا کر بعض اعمال کو "گناہ میں تعاون" قرار دیا ہے۔ مثال کے طور پر:کفارِ حربی کو اسلحہ یا دیگر اشیاء فروخت کرنا، سودی لین دین کرنا، ایسے شخص کے ساتھ خرید و فروخت کرنا جو مال کو حرام کاموں میں استعمال کرتا ہے، جمعہ کی نماز کے وقت خرید و فروخت کرنا، انگور بیچنا یا کسی چیز کو شراب کی نقل و حمل کے لیے کرایے پر دینا، یہ سب "گناہ میں تعاون" کے مصادیق میں شمار کیے گئے ہیں۔/