ایکنا نیوز-اسلام ٹائمز-غزہ کے مسلمان اسرائیلی بربریت کی زد میں ہیں اور انبیاء علیہ السلام کی سرزمین عہدِ حاضر کے خوارج کی زد میں، ایسے میں مسلمان اس عید کو منائیں تو کس طرح؟ کیا مساجد میں اسرائیل اور امریکہ کی نابودی کی دعائیں کرنے سے مصیبت ٹل جائیگی؟
طاہر یاسین طاہر لکھتا ہے ؛
غزہ لہو لہان ہے، اسرائیلی جنگی جرائم کی فہرست طویل سے طویل تر ہوتی جا رہی ہے۔ اب اسرائیلی حملے ہسپتالوں اور پارکوں پر بھی ہو رہے ہیں۔ دنیا کے سارے ستم گر اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں، ہم مگر عید کے تہنیتی پیغامات کے بعد دعاؤں کے ذریعے دشمن پر فتح پانے کا ’’چلہ‘‘ کاٹ رہے ہیں۔ رمضان المبارک کو جس طرح ہم نے گزارا وہ بجائے خود ایک لمحہء فکریہ ہے۔ حرف از خود لہو لہو ہیں، اگرچہ ہم بڑے لحن سے اور نئی نئی تراکیب کو تراش کر عید مبارک کا ورد کیے جا رہے ہیں مگر حقیقت میں ہم مسلمانوں کے اس مذہبی تہوار کی غرض و غایت کو بھول چکے ہیں۔ کوئی عالمِ دین آئے اور لوگوں کو اس حوالے سے بتائے۔ علماء مگر فتوہ گری اور پھر اسی فتوہ کاری کے بعد ’’اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو‘‘ والا درس دینے میں مصروف ہیں۔ علمائے حق کو بہر حال آگے بڑھنا ہوگا۔
ماہ صیام کے دوران میں ہم نے مختلف ٹی وی چینلز پر افطار و سحر کی میراتھن ٹرانسمیشن بھی دیکھیں۔ گاہے خیال گزرتا کہ کیا اسلام اس قدر کسمپرسی کی حالت میں ہے؟ کہ اس کے پاس نہ ڈھنگ کا کوئی عالم نہ روزہ کی فرضیت کے مقاصد بیان کرنے والا کوئی مفکر؟ لے دے کے کمرشل’’اتاشی‘‘ بیٹھے لوگوں میں واشنگ مشینیں اور موٹر سائیکلیں تقسیم کر رہے ہیں۔ جب بازاری لوگ دینی احکامات کو اپنی من مرضی میں ڈھالنے لگ جائیں تو مصیبتیں اپنا راستہ خود تلاش کرتی ہیں اور یہ مصیبتیں کسی ایک فرد پر نہیں بلکہ پوری ایک قوم پر نازل ہوا کرتی ہیں۔ ہم مگر خود پرستی کا شکار لوگ ہیں۔ باتیں ایسی کہ دنیا کو لمحے میں فتح کرنے کا ہنر جانتے ہیں اور کام ایسے کہ بیگانوں کے ساتھ ساتھ اپنے بھی مذاق اڑاتے پھریں۔ تسلیم کر لینا چاہیے کہ جب تک ہم دین میں اجتہادی نکتہ نظر کو اہمیت نہیں دیں گے، بھٹکتے رہیں گے۔ دنیا چاند تسخیر کرنے کے بعد مریخ کی طرف محوِ سفر ہے اور ہم ہیں کہ اتنے ڈھیر سارے مفتی و مولویوں سمیت بڑی بڑی مشینوں کے سہارے بھی چاند کی ایک جھلک نہیں دیکھ پاتے۔
البتہ ہر سال ’’قاسم مسجد والا مفتی پوپلزئی‘‘ ایسی نظر بازی کرتا ہے کہ چاند اس کی نظر میں سمٹ کر رہ جاتا ہے جبکہ باقی پورا پاکستان ہکا بکا مفتی پوپلزئی کی کرامت کاری کو ایک آدھ دن داد ہی دیتا رہتا ہے۔ کیا عالمِ اسلام کے جید علماء مل کر اس مسئلے کا حل نہیں نکال سکتے؟ کیا عید کا چاند دیکھنے کا معاملہ محکمہ موسمیات کے سپرد نہیں کیا جا سکتا؟ جو اگلے ایک ہزار سال تک کے لیے بتا دیتے ہیں کہ کب اور کہاں کہاں چاند گرہن ہوگا اور کہاں سورج گرہن؟ مولوی مگر اپنی ’’رٹ‘‘ کو چیلنج نہیں ہونے دیتا۔ ہر سال ہم پوری دنیا میں تماشا بنتے ہیں۔
وہ جو کہتے ہیں کہ اللہ کا فرمان ہے کہ حاکمِ وقت کی اطاعت کرو، ان سے ایک سوال یہ تو بنتا ہے کہ تم لوگ سرکاری رویت ہلال کمیٹی کے مقابلے میں اپنی ’’نجی رویت کمیٹی‘‘ بٹھا کر حاکم وقت کے احکامات کے منکر کیوں بنتے ہو؟ بازاری لوگ جب دینی احکامات کو اپنی من مرضی میں ڈھالنے لگیں تو بلاشبہ مصیبتیں نازل ہوا کرتی ہیں۔ امت تفرقہ بازی کی مصیبت میں گرفتار ہے۔ وہ مولوی جس نے تکفیری رویوں کو رواج دیا، مسلمانوں کے قتل کو جائز قرار دیا، عید کے خطبات میں وہی مولوی امت کی سربلندی اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو کا درس دے رہا ہے۔ میں دکھی دل کے ساتھ یہ سب صفحہء قرطاس پہ لکھے جا رہا ہوں، مگر یہ ایسے حقائق ہیں جن سے آنکھیں نہیں چرائی جا سکتیں۔ بلاشبہ یہ عید زخم نواز ہے۔ عراق سے غزہ تک ہم چور چور ہیں۔ انبیاء علیہ السلام کے مزاراتِ مقدسہ کے ساتھ ’’جہاد‘‘ کرنے والے دین کی ایسی ایسی تعبیریں پیش کرتے ہیں جو تل ابیب والوں کو بھی راس آتی ہیں اور نیویارک والوں کو بھی۔ غزہ کے مسلمان اسرائیلی بربریت کی زد میں ہیں اور انبیاء علیہ السلام کی سرزمین عہدِ حاضر کے خوارج کی زد میں، ایسے میں مسلمان اس عید کو منائیں تو کس طرح؟ کیا مساجد میں اسرائیل اور امریکہ کی نابودی کی دعائیں کرنے سے مصیبت ٹل جائے گی؟ نواب زادہ نصراللہ خان مرحوم پھر یاد آتے ہیں
کب اشک بہانے سے کٹی ہے شبِ ہجراں
کب کوئی بلا صرف دعاؤں سے ٹلی ہے۔