ایکنا نیوز- سہون کراچی اور دیگر صوبوں کے رہنےوالوں کے لیے ایک مثالی ویک اینڈ مقام ثابت ہوسکتا ہے خاص طور پر موسم سرما میں یا یوں کہہ لیں کہ سردیاں وہاں جانے کے لیے زیادہ اچھا موسم ہیں کیونکہ گرمیوں میں وہاں درجہ حرارت آپ کے لیے ناقابل برداشت ثابت ہوسکتا ہے۔
حیدرآباد سے سہون کی دوری ڈیڑھ سو کلو میٹر ہے اور وہاں پہنچنے میں لگ بھگ ڈیڑھ گھنٹہ لگ جاتا ہے۔
ڈان نیوز کے مطابق سید محمد عثمان مروندی جنھیں عام طور پر لعل شہباز قلندر کے نام سے جانا جاتا ہے، بارہویں صدی عیسوی صدی کے صوفی بزرگ ہیں جو مروند میں پیدا ہوئے جو آج کے افغانستان کا حصہ ہے، انہوں نے مدینہ، کربلا اور مشہد کے دورے کیے تاکہ روحانی گائیڈنس حاصل کرسکیں اور معروف روایات کے مطابق انہیں برصغیر جا کر خدا کا پیغام پھیلانے کی ہدایت کی گئی تھی۔
وہ اوچ شریف کے سید جلال الدین بخاری کے ہم عصر تھے اور وہ سہون موجودہ عہد کے پنجاب، سندھ اور اجمیر کا سفر کر کے پہنچے۔
ان کے پسندیدہ مرید بودلا بہار تھے جن کا مزار پرانے قلعے کے قریب ہے اور یقیناً دیکھنے لائق ہے، وہاں آپ گلوکاروں کا ایک گروپ دیکھ سکیں گے جو ان دونوں بزرگوں کی روایات کو مناتے نظر آتے ہیں اور لوگوں سے آپ کو اس معروف کہانی کا پتا چلے گا کہ کس طرح بودلا بہار اپنی موت کے بعد بڑھے اور قلعہ کیسے نیچے چلا گیا۔
کہانی میں بتایا جاتا ہے کہ کس طرح سہون کے حکمران، لعل شہباز قلندر اور بودلا بہار کی بڑھتی مقبولیت سے خوفزدہ ہو کر، بودلا بہار کے ٹکڑے کرنے کا حکم دیا جس پر فوجیوں نے اس حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اس بزرگ کو شہید کر دیا۔
جب شہباز قلندر کو اس سانحے کا پتا چلا تو انہوں نے اپنے پسندیدہ مرید کا نام پکارا تو ان کی ٹکڑوں میں تقسیم لاش جوڑ کر پھر سے بودلا بہار کی شکل اختیار کر کے اپنے پیر کے نعرے کا جواب دینے آگئی، اس کے باوجود حکمران لعل شہباز کی تبلیغ پر اثرانداز ہوا تو بودلا بہار نے لعل شہباز قلندر کے حکم پر پورے قلعے کو الٹا کر دیا، لوگوں کا دعویٰ ہے کہ اس کے کھنڈرات میں الٹے قلعے کو دیکھا جاسکتا ہے۔
بودلا بہار سے لعل شہباز کے مزار کی جانب تنگ راستے پر چلنے کے دوران آپ ارگرد ہر طرح کی دکانوں کو دیکھ سکتے ہیں جن میں چادروں سے لے کر پلاسٹک کے کھلونے اور چینی الیکٹرونکس وغیرہ کو دیکھا جاسکتا ہے، یہاں زندگی کبھی سست نہیں ہوتی۔
اس مزار میں ہر وقت کچھ روتے نظر آتے ہیں اور اپنا سر ریلنگ پر رکھ دیتے ہیں، لعل شہباز قلندر انہیں ہر قسم کے رنگ و نسل، ذات اور دیگر چیزوں سے قطع نظر امید دیتے ہیں اور شکر گزاری و احترام کی ایک لہر آپ کے جسم و جاں میں دوڑنے لگتی ہے۔