مراکش؛ تاریخی مصحف مسجدالاقصی کے لیے وقف + تصاویر

IQNA

مراکش؛ تاریخی مصحف مسجدالاقصی کے لیے وقف + تصاویر

8:12 - October 13, 2020
خبر کا کوڈ: 3508344
تہران(ایکنا) مسجد‌الاقصی سے عشق عالم اسلام کے ہر فرد کے دل میں ہے جیسے مراکش کے بادشاہ ابوالحسن علی مرینی نے نادر قرآنی نسخہ کو مسجدالاقصی اور قبلہ اول کے لیے وقف کیا۔

مسجدالاقصی کے میوزیم میں «مصحف  با صندوق‌ مراکش»  موجود ہے جو سات سو سال قبل مراکش کے بادشاہ

ابوالحسن علی‌ بن عثمان بن‌ یعقوب مرینی، معروف منصور بالله (از ۷۳۱ تا ۷۴۹ق) کا وقف کردہ ہے. انہوں نے ایسا مصحف لکھا جو اپنی نوعیت کے حوالے سے اس زمانے میں بے نظیر تھا اور آج بھی یہ نسخہ اسلامی آرٹ اور مسجد الااقصی سے مراکش کی محبت کا نمونہ سمجھا جاتا ہے۔

 

لکڑی کے چاندی والے نقش و نگار چند بکس میں اس نسخے کے الگ الگ حصے موجود ہیں۔ «مصحف با صندوق‌ مراکش»، سال ۱۳۴۴ کوسلطان ابوالحسن مرینی کے زریعے سے کتابت کی گیی ہے. ابوالحسن نے مسجدالاقصی سے عشق کی وجہ سے اس کو قبلہ اول کے مسلمانوں کے لیے وقف کیا۔

 

اس کے وقف‌نامه میں لکھا گیا ہے: «یہ نسخه قرآن قبة‌الصخره میں سوره حمد و توحید، ناس و فلق اور سوره بقره کی چند آیات اور رسول اکرم پر درو و سلام کے بعد میرے والدین اور تمام مسلمانوں کے لیے دعا کے ساتھ وقف کیا گیا اور نیک افراد کو اس کی تلاوت کرنی چاہیے.»

 

خوش اخلاق اور خوش خط حاکم اسلامی

سلطان ابوالحسن منصور بالله مرینی، جو امیرالمسلمین کے لقب سے معروف تھا وہ بنی مرین اور بربری نژاد سے تعلق رکھتا تھا. خوش اخلاق اور خوش فکر. سلطان ابوالحسن مرینی زھد اور خوش خطی میں معروف تھا. انکو یہ ھنر والد سے ورثے میں ملا تھا انہوں نے دور حکومت میں (مغربی طرابلس، شمالی افریقہ اور اندلس) میں وحدت کو قائم کیا اور کئی مدرسے یہاں پر قایم کیے۔

 

تاریخ میں مسلمان حکمرانوں کے درمیان قرآن کا تحفہ اہم ترین تحفہ سمجھا جاتا تھا جو وہ ملاقاتوں میں ایک دوسرے کو تحفے میں پیش کرتے۔

 

اس صندوق والے نسخے سے معلوم ہوتا ہے کہ سلطان ابوالحسن مرینی، ملک ناصر محمد بن منصور قلاوون اور مصر کے سلطان مملوکی ایک دوسرے کے ہم عصر تھے. سلطان ابوالحسن نے تین نسخے  سلطان ناصر محمد بن منصور قلاوون کو تحفے میں پیش کیا اور ایک نسخہ مسجدالحرام اور ایک نسخہ مسجدالنبی(ص) اور تیسرے نسخے کو مسجد‌الاقصی میں وقف کیا جو اب تک موجود ہے۔

 

انجام پژوهش‌های مفصل

اب تک اس نسخے پر درست تحقیقات نہ ہوسکی تھی مگر  بیت‌المقدس کی ایک خاتون «سمر نمر بکیرات» نے اس باکس و نسخے پر تحقیق کی اور کہا کہ اس صندوق پر تحقیق سے اندازہ ہوا کہ اس پر بہت محنت سے کام ہوا ہے ۔

 

محققین کے مطابق اس کے بعض حصے گم ہوگیے تھے جو عثمانی دور حکومت میں سال ۱۸۰۷ کو حاج مبارک بن عبدالرحمن المالکی کے زریعے سے دوبارہ لکھا گیا اور سال ۱۹۳۲ کو اس کا تیسواں پارہ کھو گیا  اور آج اس نسخے کے ۲۴ پارے خط سلطان مرینی کے خط میں موجود ہیں. یہ مصحف  خط کوفی میں لکھا گیا ہے۔

 

مذکورہ نسخہ انتہائی خوبصورتی اور سجاوٹ کے ساٹھ لکھا گیا ہے اور فلسطین و مراکش کے ماہرین کے مطابق اب تک اس نسخے کی قیمت مشخص نہیں کیا گیا ہے تاہم وہ اس گرانقدر نسخے کو دونوں ممالک اور قدس کے لیے عظیم تحفہ اور سرمایہ قرار دیتے ہیں۔

 

قابل ذکر ہے کہ مملوکی اور عثمانی دور میں کافی مسلمان حکمرانوں کی جانب سے مسجدالاقصی کو ایسے نسخے وقف کیے گیے ہیں جسیے مصحف «انورپاشا»، «مصحف با صندوق‌‌ سلطان مراد» اور مصر کےبادشاہ مصحف سلطان «برسبای» جو فلسطین کے میوزیم میں سب سے بڑا مصحف شمار کیا جاتا ہے۔/

 

3928760

نظرات بینندگان
captcha