افغانستان میں سیاسی اختلافات ختم کرنے کی کوشش

IQNA

افغانستان میں سیاسی اختلافات ختم کرنے کی کوشش

8:10 - May 06, 2022
خبر کا کوڈ: 3511801
طالبان انتظامیہ، جسے یورپ اور امریکہ کی دشمنانہ پالیسیوں کی بنا پر کافی اقتصادی مسائل و مشکلات کا سامنا ہے، اب سیاسی اختلافات ختم اور تمام اقوام کی شمولیت سے ایک وسیع البنیاد حکومت تشکیل دینے کی کوشش شروع کر رہی ہے۔
ایکنا انٹرنیشنل ڈیسک- افغانستان میں طالبان کے ایک اعلی عہدیداروں نے سیاسی اختلافات ختم کرنے کے مقصد سے حزب اسلامی افغانستان کے سربراہ سے ملاقات کی ہے ۔ دوسری جانب طالبان کی عبوری حکومت کے وزیر تعلیم نے افغانستان میں لڑکیوں کی تعلیم کو طالبان انتظامیہ کی ترجیحات میں قرار دیا ہے۔
 
افغانستان میں طالبان کی حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم کئے جانے کیلئے مختلف تنظیموں کی جانب سے ایک وسیع البنیاد حکومت کی تشکیل کی شرط عائد کی گئی ہے ۔ طالبان انتظامیہ، جسے یورپ اور امریکہ کی دشمنانہ پالیسیوں کی بنا پر کافی اقتصادی مسائل و مشکلات کا سامنا ہے، اب سیاسی اختلافات ختم اور تمام اقوام کی شمولیت سے ایک وسیع البنیاد حکومت تشکیل دینے کی کوشش شروع کر رہی ہے۔
 
اسی سلسلے میں طالبان کے دو رہنماؤں نے حزب اسلامی افغانستان کے سربراہ گلبدین حکمتیار سے ملاقات کی خبر دی ہے۔
 
طلوع نیوز چینل کی رپورٹ کے مطابق طالبان کے نگراں وزیر خارجہ مولوی امیر خان متقی اور پاکستان میں طالبان کے خصوصی ایلچی سردار احمد خان نے حزب اسلامی افغانستان کے سربراہ گلبدین حکمتیار اور ان کے قریبی ساتھیوں سے ان کی رہائشگاہ پر ملاقات کی ہے۔
 
حزب اسلامی افغانستان کے سربراہ گلبدین حکمتیار کے دفتر نے ایک بیان میں اعلان کیا ہے کہ اس ملاقات میں فریقین نے افغانستان کے سیاسی، اقتصادی، سماجی اور سیکورٹی مسائل پر تبادلہ خیال کیا۔ حزب اسلامی افغانستان کے سربراہ گلبدین حکمتیار افغانستان میں لڑکیوں کی تعلیم اور گرلز اسکول کھولے جانے کے سخت حامی ہیں ۔
 
دریں اثنا طالبان انتظامیہ کے ایک رکن نے کہا ہے کہ افغانستان میں لڑکیوں کی تعلیم طالبان کی عبوری انتظامیہ کی اہم ترجیحات میں شامل ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق طالبان کی وزارت تعلیم کے ترجمان عزیز احمد ریان کا کہنا ہے کہ افغان لڑکیوں کی تعلیم عالمی برادری، علاقے کے تمام ملکوں اور افغان عوام کے لئے جتنی زیادہ اہمیت رکھتی ہے اس سے کہیں زیادہ طالبان انتظامیہ کی نظر میں اہمیت رکھتی ہے۔
 
انھوں نے کہا کہ افغانستان میں لڑکیوں کے اسکول کھولے جانے کے بارے میں طالبان حکام کی کئی مٹنگیں ہوئی ہیں۔
 
یاد رہے کہ افغانستان میں خواتین کے لئے یونیورسٹیوں کے دروازے کھولے جانے سے سن نوے کے عشرے کی طالبان حکومت کے مقابلے میں موجودہ طالبان انتظامیہ کے رویے میں تبدیلی کا پتہ چلتا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ افغانستان میں گذشتہ سال اگست میں طالبان کے بر سر اقتدار آنے کے بعد اس ملک میں لڑکیوں کے اسکول کھولے نہیں گئے ہیں ۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ افغانستان میں طالبان کی انتظامیہ پر نہ صرف اندرون ملک بلکہ مختلف بین الاقوامی اور انسان دوستانہ اداروں اور تنظیموں خاص طور سے علمائے کرام اور مختلف شخصیات نیز خواتین کے حقوق کی مدافع تنظیموں کی جانب سے گرلز کالج کھولے جانے کا خاصا دباؤ ہے اور طالبان نے لڑکیوں کی تعلیم شروع کرنے کا بارہا وعدہ بھی کیا ہے۔
 
اس دوران افغانستان میں خواتین کے حقوق کی ایک تنظیم نے بدھ کے روز کہا کہ تمام افغان عوام، طالبان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ افغانستان میں لڑکیوں کے اسکول اور کالج کھولیں اور خواتین کو ان کے کسی بھی حقوق سے محروم نہ کریں۔
نظرات بینندگان
captcha