دل میں ہیجان پیدا ہوتا ہے اور اشک نکل آتے ہیں

IQNA

قاری اور ڈاکٹر سے دلچسپ انٹرویو

دل میں ہیجان پیدا ہوتا ہے اور اشک نکل آتے ہیں

7:00 - February 11, 2023
خبر کا کوڈ: 3513739
ایکنا تھران- قاری قرآن اور ڈاکٹر یاور عباس میر قرآن کی تلاوت کو مقابلوں کی بجائے معرفت پیدا کرنے کا زریعہ قرار دیتا ہے۔

ایکنا- تقریبا ڈیڑھ سال پہلے علی گڑھ جانا ہوا تو یاور عباس میر صاحب سے تعارف ہوا۔ تعارف کی بنیاد یہ تھی کہ وہ اپنی پی ایچ ڈی کے رسالہ کے دوران، دیوان امام خمینی رح  کے منظوم ترجمہ جو والد محترم نے کیا ہے سے واقف ہوئے تھے۔اور اس کے سبب والد صاحب سے ملاقات کی خواہش تھی لیکن بدقسمتی سے جب مجھ سے ملاقات ہوئی اس وقت میں والد محترم کے چہلم کی تیاریوں میں مشغول تھا۔ بہر حال وہ چہلم کی مجلس میں آئے اور بر وقت ہمیں احساس ہوا کہ ہم آغاز مجلس چہلم کے لئے کسی قاری سے بات کرنا بھول گئے تھے۔ بر وقت ہی پتہ چلا کہ یاور صاحب قاری بھی ہیں تو ان سے تلاوت کلام پاک کے لئے کہا۔ انھوں نے جب تلاوت کی تو ان کی آواز کی گونج، گرج، پختگی اور حسن قرائت دیکھ کر مجھے بڑی مسرت ہوئی اور میں نے بعد میں وہ تلاوت بارہا ریکارڈنگ سے سنی۔ جب قم المقدسہ گیا تو کئی لوگ جنھوں نے مجلس چہلم کو آنلائن سنا تھا انھوں بھی تلاوت کی بہت تعریف کی۔ تو آئیے یہ گفتگو سنتے اور دیکھتے ہیں کہ یہ تلاوت کا فن اور اس کی معنویت اور روحانیت کیسے پیدا ہوتی ہے۔ 


ایکنا: سب سے پہلے آپ اپنا تعارف کرائیے اور اپنی تعلیم کے بارے میں ہمیں  بتائیے۔

میرا نام یاور عباس میر اور والد صاحب  کا نام غلام محمد میر ہے، بندہ حقیر 1993ء میں  ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر، ضلع سرینگر کے ایک علاقہ  " بال ہامہ" میں پیدا ہوا ۔ ابتدائی دینی تعلیم علاقہ میں موجود  تنظیم المکاتب کے ایک مکتب سے حاصل کی، درجہٴ پنجم پاس کرنے کے بعد اسی مکتب میں 2007ء میں بطور مدرس خدمت انجام دینے لگا۔ یہاں تک کہ تدریس کے دوران  گریجویشن بھی مکمل کی اور  2014ء میں علیگڑھ مسلم یونیورسٹی میں ایم اے کے لئے داخلہ ہوا۔ الحمد للہ شعبہٴ فارسی میں ایم، اے  کے بعد وہیں پر  2021ء میں پی۔ایچ۔ ڈی ڈگری بھی مکمل کی۔ اس کے بعد 2022ء میں نواب شیر محمد خاں انسٹیٹیوٹ، پنجابی یونیورسٹی، مالیرکوٹلہ  پنجاب میں میرا تقرر بطور فارسی لیکچرر کے ہوا اور اس وقت وہیں پر خدمت انجام دے رہا ہوں۔

 

ایکنا: اچھا عام طور پر کالج یا یونیورسٹی کے طلباء مروجہ دنیاوی علوم پر ہی زیادہ دھیان دیتے ہیں لیکن آپ کے اندر مروجہ علوم کے ساتھ دینی شعائر بالخصوص تلاوتِ قرآنِ کریم کے ساتھ اتنا شغف  کیسے ہے؟

 

اس کی جڑیں دراصل بچپن میں مکتب میں پیوست ہیں۔  مکتب میں پڑھنے کے دوران کبھی کبھی حسنِ قرائت کے مقابلے بھی ہوا کرتے تھے۔ میرے بچپن کے استاد محترم غلام محمد جو صاحب قرائت قرآن اور مخارج و قواعد کے معاملے میں بڑے زبردست اور سخت استاد تھے جو اس مقابلے کے لئے ہمیں تیار کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے تقریباً 6 یا 7 سال کی عمر میں انہوں نے مجھے اولین حسنِ قرائت  یا سورہ مع ترجمہ مقابلہ کے لئے آمادہ کیا تھا جس کے بعد یہ سفر گویا ایک فطری ذوق بن کر جاری رہا، ظاہر ہے اوائل میں قرائت ایک دم سے اچھی نہیں ہو جاتی لیکن فارغ التحصیل ہونے کے بعد بھی میں موبائل وغیرہ کے ذریعے سے قرآن  برابر سنتا رہا جو مجھے روز بہ روز اپنی طرف اور زیادہ کھینچتا رہا یہاں تک کہ میں نے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا، اور قرآن برابر سنتا رہتا تھا با الفاظ دیگر قرآن کریم کی تلاوت بچپن سے ہی  میری رگ و پے میں بستی گئی جو کہ الحمد للہ آج بھی میرے دل وجان کا حصہ بنا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے مروجہ تعلیم مجھے اس ذوق سے بے ذوق نہیں کر پائی۔

 

ایکنا: بہت خوب ، یہ بتائے کہ قرآن کو اچھی آواز  یا ترتیل کے ساتھ پڑھنا آپ نے کیسے سیکھا؟

 

ابتداء میں مخارج و قواعد تو مکتب میں رہ کر سیکھ لئے ، ریڈیو  یا ٹیپ ریکارڈر  پر بھی کبھی کبھار تلاوت نشر ہوتی تھی تو اس سے ذوقِ تلاوت میں ایک نیا جذبہ پیدا ہو جاتا تھا۔  اُس وقت موبائل اور انٹرنیٹ  کشمیر بلکہ ہندوستان  میں نہیں ہوا کرتے تھے ورنہ شاید انٹرنیٹ سے  بھی استفادہ کرتے۔ پھر جب 2007ء کے قریب موبائل فون عام ہوگئے تو میموری کارڈ میں صوتی  قرآن لوڈ کرواکر سننے لگے۔ لیکن باقاعدہ طور پر میں نے علیگڑھ یونیورسٹی میں آکر انٹرنیٹ کی فراہمی کے سبب ماہر قاری اساتذہ کے ویڈیوز  سے استفادہ کیا اور بار بار مشق کرنے کی کوشش کے سبب  میری قرات کا معیار یہاں تک آپہنچا۔

 

ایکنا: قرائت درست کرنے کے لئے آپ نے کس استاد قاری سے مدد لی؟

 

اوائل میں یوٹیوب کے ذریعہ  استاد قاری عبد الباسط، استاد صدیق منشاوی  اور استاد مصطفیٰ اسماعیل کو زیادہ سنتا رہا۔ جن کی وجہ سے میری قراٴت بہت حد تک بہتر ہوئی۔

 

اقنا: کس قاری نے آپ کو سب سے زیادہ متاثر کیا؟

 

مذکورہ بالا قراء  کے علاوہ  مصری قاری محمود شحات محمد  انور نے مجھے کافی متاثر کیا جن کی میں نے کئی سال تک  پیروی کی۔  پھر جب میں نے یہ بھانپ لیا کہ میں ان کی لمبی سانس میں تلاوت نہیں کرپاتا ہوں تو  پھر یوٹیوب پر ہی بنگلادیش کے ایک بڑے قاری استاد احمد بن یوسف کی تلاوت سے آشنا ہوکر ان کی پیروی کرنے لگا۔ جو اب تک جاری ہے۔

 

ایکنا: آپ کی نظر میں قرائت یا  اچھے لب ولہجہ کے ساتھ قرآن پڑھنے کا کیا مقصد ہے؟

 

یہ آپ نے سب سے بہترین  اور اہم سوال پوچھا ہے۔ حقیر کی نظر میں  اچھی آواز میں قرآن پڑھنا اصل ہدف نہیں ہے بلکہ یہ آیاتِ قرآنی کی طرف رغبت اور توجہ کا ایک ذریعہ ہے۔  چنانچہ مختلف قسم کی آوازوں میں مختلف اثرات  ہیں۔ اچھی اور دلنشیں آواز کی ایک خاصیت یہ ہے کہ وہ توجہ دلاتی ہے اور مترنم  کلام پر غور و خوض کرنے پر ابھارتی ہے۔ دوسری خاصیت یہ ہے کہ آوازِ ترنم ایک فطری آواز ہے جسے سن کر انسان بہ آسانی متن کو  یاد رکھ پاتا ہے۔ چنانچہ ہمارے مشاہدہ میں ہے کہ بچے یا بڑے، نثر کی بہ نسبت، نظم میں چیزوں کو بہت جلد اور آسانی کے ساتھ یاد کر لیتے ہیں۔  اسکول کے نثری اسباق ہمیں یاد ہوں  یا نہ ہوں  لیکن اسکول کی مارنگ پریئر  اور اسکولی نظمیں ہمیں بہت دیر تک کیوں یاد رہتی ہیں؟ اس کی وجہ یہی ترنم ہے جو فطرت کے ساتھ بہت سازگار ہے۔ لہذا شاید یہی وجوہات ہیں کہ قرآن کو ترتیل کے ساتھ پڑھنے  کے لئے قرآن بھی اعلان کرتا ہے کہ وَرَتِّلِ القُرآنَ تَرتِیلاً۔  تاکہ ایک تو ترتیل کے ساتھ قرآن سن کر زیادہ دیر یاد رہے اور ثانیاً  اس کے  ذریعہ سے قرآن کی طرف  لوگ توجہ دیکر  اس کے معانی و مفاہیم پر  غور کرپائیں۔  جیسے کہ اللہ نے بھی بار بار دہرایا ہے کہ اس میں غور و فکر کرو، غور و فکر کرنے والوں کے لئے اس میں نشانیاں ہیں۔

 

ایکنا: آج تک آپ نے کن مقامات پر تلاوتِ قرآن کا شرف حاصل کیا اورکیا نتائج محسوس کئے؟

 

اللہ کے فضل اور توفیق سے آج تک سینکڑوں مقامات پر تلاوت کا شرف حاصل ہوا ہے جن میں مقامی دینی مجالس و محافل کے علاوہ  کشمیر کے مختلف علاقے، علیگڑھ، یو پی کے مختلف علاقے،  دہلی،  چننئی تامل ناڈو،  مالیرکوٹلہ پنجاب وغیرہ  کی محافل و مجالس شامل ہیں۔ اس کے علاوہ قم المقدس ایران میں بھی کئی بار نجی محفلوں میں موقع ملا ۔ قرآنی مقابلوں میں دو تین بار سے زیادہ شرکت نہیں کی، اگرچہ ان سبھی مقابلوں میں انعام و اکرام سے نوازا گیا لیکن  طبیعت اس طرف مائل نہیں رہی۔ 
سوال کے دوسرے حصے کی طرف آتے ہیں ۔حسنِ قراٴت کے نتائج کی اگر بات کی جائے تو میں نے کئی جگہوں پہ محسوس کیا کہ کلام اللہ کو ترتیل کے ساتھ پڑھنے سے سب سے پہلے خود پر ایک روحانی کیفیت طاری ہو جاتی ہے جس کے بعد میں کافی دیر تک کسی سے معمول کے مطابق بات نہیں کر پاتا ہوں۔ ایسی حالت انسان کوجہانِ آخرت کی طرف زیادہ متوجہ کرتی ہے ۔ سامعین پر اس کے اثرات انہیں کو معلوم ہوں گے لیکن میں جب بطور سامع ہوتا ہوں تو دل میں ہیجان پیدا ہوجاتا ہے اور کئی بار رقت طاری ہو کر خود بخود اشک جاری ہوجاتے ہیں۔ کئی لوگ قرائت کے بعد آکر حوصلہ افزائی کے ساتھ ساتھ  اپنے سکون قلب کا اظہار کرتے ہیں۔ اور قرات سیکھنے کے متعلق سوالات کرتے ہیں۔  البتہ اگر بہترین قراء حضرات کی تلاوت کے نتائج کی  بات کی جائے تو  استاد عبد الباسط وغیرہ جیسے قاری  کی تلاوت سن کر تو بہت سے غیر مسلم  متاثر ہوکر اسلام کے دائرے میں شامل ہوئے ہیں۔ ہدایت دینے والا اگرچہ اللہ ہی ہے لیکن اس نے ذرائع رکھے ہیں اور حسنِ قرائت ان میں سے ایک ہے۔

 

ایکنا: بہترین تلاتِ قرآن سیکھنے کے خواہشمندوں کے لئے آپ کیا رہنمائی کرنا چاہیں گے۔؟

 

میں کوئی ماہر نہیں ہوں جو رہنمائی کروں البتہ تجربہ کی بنیاد پر دو باتیں عرضِ خدمت ہیں :
ایک یہ کہ قرائت سیکھنے کے لئے کسی ایک  استاد قاری مثلاً قاری صدیق منشاوی  کی پیروی کی جائے اور اسی کو اپنا سر مشق قرار دے کر بار بار مشق کی جائے۔ بہت سے قاریوں کی تقلید آپ کی آواز کو بے ڈھنگا بنا سکتی ہے۔ یہ بات مجھے بعد میں تجربہ سے پتہ چلی ورنہ میں یہ غلطی نہ کرتا۔
ثانیاً  یہ کہ قرائت قرآن میں خلوص اور مقصدِ اصلی  کو ملحوظ رکھا جائے۔ ایسا نہ ہو کہ  اچھی آواز سے پیغام خدا کے بجائے خود کی ترویج  ہونے لگے۔کیونکہ  شیطان اچھے کاموں کے ذریعہ بھی آدمی کو بہکانا جانتا ہے۔ اللہ ہمیں گمراہی سے محفوظ رکھے۔ آمین۔

بملازمان سلطان خبری دھم ز رازی

کہ جھان توان گرفتن ز نوائ دل گدازی
علامہ اقبال

یاور عباس میر
مستقل پتہ:
بالہامہ سرینگر کشمیر
miryawarabass@gmail.com

گفتگو (محمد باقر رضا سعیدی)

ویڈیو کا کوڈ
نظرات بینندگان
captcha