ایکنا نیوز- مفسر قرآن آیتالله سیدمصطفی محقق داماد درس تفسیر قرآن میں سوره شعرا کی بعض آٰیات کی تفسیر کرتے ہیں۔
انکا کہنا تھا کہ حضرت ابراهیم بہت سادگی اور منطقی انداز میں اپنے قبیلے سے بات کرتے ہیں اور انکے سادہ اسلوب سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔
ابراهیم اپنے قبیلے کے افراد کو سوچنے پر مجبور کرنے کے لیے چند سادہ سوالات پیش کرتے ہیں۔
پہلا سوال یہ کرتا ہے کہ تم س چیز کی پرستش کرتے ہو؟ ابراهیم بطور توحید پرست یہاں سے توحید کا درس شروع کرتا ہے کہ میں چاہتا ہوں تمھارے رب کے بارے میں پوچھتا ہوں کہ کس کی عبادت کرتے ہو؟ وہ سوچ کر کہتے ہیں کہ بتوں کو پوجتے ہیں اور انکے مقابل تسلیم ہوتے ہیں۔
قرآن رب سے گفتگو کو تسلیم کرتا ہے
دوسرا سوال حضرت ابراهیم یہ کرتا ہے کہ تم یقینا اپنے رب سے بات بھی کرتے ہوں گے اور ان سے مانگتے بھی ہوں گے، کیا جب تم ان کو پکارتے ہو تو وہ تمھاری بات سنتا ہے؟
تیسرا اہم ترین سوال جو انہیں فکر کرنے پر مجبور کرتا ہے وہ یہ ہے کہ تمھارے بت تمھیں فایدہ پہنچاتا ہے یا اگر عبادت نہ کرو تو وہ تمھیں نقصان پہنچا سکتا ہے؟ «قَالَ هَلْ يَسْمَعُونَكُمْ إِذْ تَدْعُونَ أَوْ يَنْفَعُونَكُمْ أَوْ يَضُرُّونَ»(شعراء، 72).
عبادت و پرستش خالق کے مقابل اور ان سے رابطہ بذریعہ دعا ایک بہترین وسیلہ ہے، دعا یعنی پکارنا اور جواب سننا۔ انسان کو ایسے رب کی پرستش کرنی چاہئے جس سے گفتگو ممکن ہو۔
قرآن مجید تاکید کرتا ہے کہ لوگوں کو رب سے گفتگو کرنی چاہیے اسی لیے کہتا ہے: «وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ»(بقره، 186)،
یعنی جب میرے بندے تم سے سوال کرے کہ کیسے رب کا پکارے تو کہو کہ میں ان سے نزدیک ہوں، میں دعا کرنے والوں کی دعا سنتا اور جواب دیتا ہوں، لہذا مجھ سے مانگے اور دعا کے زریعے سے
مجھ پر ایمان لائے۔ قرآن کے مطابق اگر کوئی چاہتا ہے کہ اسکا ایمان محکم ہو تو اسے چاہیے کہ اپنے رب کو پکارے یعنی دعا کریں۔
یہاں پر ابراهیم اپنی قوم سے کہتا ہے اے میری قوم، جب تم اپنے رب کو پکارتے ہو تو کیا وہ تمھاری آواز سنتا ہے؟ اس سوال پر وہ لوگ سوچ میں ڈوب گیے اور پھر یوں جواب دیا کہ ہم اپنے ابا و اجداد کی تقلید میں ایسا کرتے ہیں، پرستش جو اہم ترین عقیدہ ہے اس میں تقلید کی گنجائش نہیں ہونی چاہیے بلکہ انسان کو عقل و فکر کی مدد سے رب کا انتخاب کرنا چاہیے۔. «قَالُوا بَلْ وَجَدْنَا آبَاءَنَا كَذَلِكَ يَفْعَلُونَ»(شعراء، 74)