حضرت ابراهیم نے اپنی بت پرست اور مشرک قوم کے مقابل دو کام کیا. مثالوں اور سوالوں سے انکی غلطی اجاگر کرنے کی کوشش کی، مثلا ان سے کہا کہ یہ کیا بات ہے کہ اس وجہ سے بتوں کو پوجتے ہو کہ تمھارے اجدا یہی کرتے تھے۔
پھر جناب ابراهیم نے محبت و دشمنی بارے سخن چھیڑا کہ تمھیں خدا سے محبت کرنا چاہیے اور خدا کو تم سے، عبد و معبود میں محبت کا رشتہ ہونا چاہیے، قرآن کہتا ہے: «یحبهم و یحبونه». جہاں ابراهیم خدا کی بات کرتے فورا کہتا کہ: «انی لااحب الافلین؛ میں غروب کرنے والے کو پسند نہیں کرتا».
پھر ابراہیم سادہ انداز میں فرماتے ہیں کہ «رب العالمین»(پروردگار کائنات) یہ کہ اس نے مجھے خلق کیا ہے:«الَّذِي خَلَقَنِي فَهُوَ يَهْدِينِ؛ اس نے خلق کیا اور ہدایت کی». کس نے خلق کیا ہے ہمیں عدم سے؟ اور یہ کہ کس لیے خلق کیا ہے ، ایک مقصد ہوگا، کیا بول سکتے ہیں ہو کہ بت ہمیں ہدایت کرسکتی ہے۔
خدا مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے: «وَالَّذِي هُوَ يُطْعِمُنِي وَيَسْقِينِ». صحیح ہے کہ میں کھاتا اور پیتا ہوں مگر یہ وسیلہ ہے میری بھوک رب مٹاتا ہے؟
جب بیمار ہوتا ہوں تو وہ شفا دیتا ہے: «وَإِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِينِ». تمام وسیلوں میں شفا اس نے ڈالی ہے۔
جب مرتا ہوں تو وہ دوبارہ زندہ کرنے والا ہے: «وَالَّذِي يُمِيتُنِي ثُمَّ يُحْيِينِ». گویا توحید اور معاد کی طرف انکو متوجہ کرتا ہے، کیا تم دعوی کرسکتے ہو کہ بت ایسا کرسکتی ہے؟
اور جب غلطی کرتا ہوں تو اس سے مغفرت طلب کرتا ہوں: «وَالَّذِي أَطْمَعُ أَنْ يَغْفِرَ لِي خَطِيئَتِي يَوْمَ الدِّينِ؛ یعنی وہ مجھے روز حساب بخش دے گا».
ابراهیم یہاں سے دعا شروع کرتا ہے تاکہ ہمیں سکھائے کہ کیسے دعا کریں، شروع میں خدا کی صفات اور حمد و ثنا کرتا ہے جیسے ہم سوره حمد میں دعا کرنا چاہتے ہیں تو شروع میں انکی حمد و ثنا کرتے ہیں، ابراہیم بھی کہتا ہے: «رَبِّ هَبْ لِي حُكْمًا وَأَلْحِقْنِي بِالصَّالِحِينَ؛ پروردگارا مجھے علم وحکمت عطا کر اور مجھے صالحین کی صف میں ڈال دے » یہ وہی حکمت ہے جسےحضرت ابراهیم اپنے لیے اور اپنی نسل کے لیے طلب کرتے ہیں۔
ابراهیم خدا سے طلب کرتا ہے کہ اسے حکمت دے(تحفے میں دے). تحفہ بلا معاوضہ ہوتا ہے. سقراط و افلاطون کی حکمت تدریس و تعلیم سے ملتی ہے تاہم یہ حکمت خدا کی عنایت ہے۔/