ایکنا نیوز- تربیتی روش میں سے ایک امتحان اور آزمائش ہے، اس طریقے سے مربی یا استاد شاگرد کو میدان عمل میں قرار دیتا ہے تاکہ اس بندے کے خلوص یا صلاحیت کو اجاگر کرسکے، اس روش یا طریقے سے حضرت ابراهیم (ع) نے بھی استفادہ کیا ہے۔
امتحان کرنا بہترین طریقوں میں سے ایک ہے جو انتہائی مجرب و موثر ہے یہانتک کہ خدا نے قرآن میں کہا ہے کہ وہ بندوں کا امتحان ضرور کرے گا۔
امتحان سے انسان کو خالص بنایا جاسکتا ہے اور اس روش کو کسی اور طریقے سے کرنا ممکن نہیں، اگرچہ وعظ و نصیحت اور دیگر روش سے بھی انسان کو چیلنج کیا جاسکتا ہے مثال کے طور پر ڈرائیونگ سیکھنے کے لیے اس کے قانون کو پڑھنا پڑے گا تاہم صرف کتاب پڑھکر ڈرائیور نہیں بن سکتا کوئی، بلکہ اس قدر گاڑی چلانے کی ضرورت ہوگی تاکہ گاڑی سیکھ سکے اور مشکلات سے آشنا ہوسکے۔
قرآن میں حضرت ابراهیم(ع) کی داستان میں کہا گیا ہے کہ وہ باپ جس نے بیٹے کا امتحان کیا:
«فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْىَ قَالَ يَابُنیَ إِنىِّ أَرَى فىِ الْمَنَامِ أَنىِّ أَذْبحُكَ فَانظُرْ مَا ذَا تَرَى قَالَ يَأَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنىِ إِن شَاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابرِين ؛
جب وہ مقام سعی و کوشش تک پہنچا تو کہا : بیٹا! میں نے خواب دیکھا کہ تمھیں ذبح کررہا ہوں، تمھارا کیا خیال ہے؟ کہا بابا! جو حکم ملا ہے تعمیل کرو، حکم خدا سے مجھے صابرین میں سے پاوگے! »(صافات:102)
حضرت ابراهیم کے انداز گفتگو کو دو پہلووں میں دیکھ سکتے ہیں : 1. مشورہ 2.امتحان
واضح ہے کہ حکم خدا میں مشورہ کیا جانا درست نہیں لہذا امتحان الھی ہی درست پہلو ہوسکتا ہے:
علامه طباطبایی اس آیت کے حؤالے سے تفسیر المیزان میں فرماتے ہیں: كلمه" ترى" یہاں پر" دیکھتے ہو" نہیں، بلكه ماده" رأى" یعنی عقیدے کے بارے میں ہے..... بیٹے کا امتحان لیا، تاکہ دیکھے کہ وہ کیا کہتے ہیں۔
وہ دیکھنا چاہتے تھے کہ اسماعیل کیا کہتا ہے ؟
اسماعیل (ع) اس امتحان میں سرخرو ہوجاتا ہے اور حکم خدا کے آگے سرتسلیم خم کرلیتا ہے۔/