ایکنا نیوز- سوره بقره کی دوسری آیت میں کہا گیا ہے کہ قرآن کریم ایسی کتاب ہے جسمیں کوئی شک نہیں: «ذَالِكَ الْكِتَبُ لَا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِّلْمُتَّقِين ؛ آن باعظمت کتاب جسمیں کوئی شک نہیں؛ اور یہ پرہیزگاروں کے لیے باعث ہدایت ہے» (بقره:2)
«لا رَيْبَ فِيهِ» یعنی یہ کتاب خدا کی جانب سے ہے اور اس میں کوئی شک نہیں. کیونکہ اس میں جو چیزیں ہیں دلیل ہیں کہ اس میں کوئی شک نہیں. اس کو دو حوالوں سے سمجھا جاسکتا ہے:
1.محتوا یا قرآن کا کانٹینٹ: قرآن کریم اپنے کانٹینٹ بارے کہتا ہے: «كه یہ (قرآن) ایسا کلمہ ہے جو حقّ کو باطل سے جدا کرتا ہے، اور یہ مذاق بالکل نہیں.» (طارق: 13و14) قرآن کا یہ دعوی خالی خولی نہیں بلکه عمل میں بھی ایسا ہی ہے. جیسے ہم دیکھ سکتے ہیں کہ آج صدیوں کے بعد بھی کسی کو جرات نہیں ہوئی کہ اسطرح سے کچھ ہی لے آتا یا اسکو غلط ثابت کرتا۔
یہ نکات انسان کو اعلی مدارج تک پہنچا سکتے ہیں اگر سمجھے تو :
قرآن ایک کتاب کی حیثیت سے لوگوں کے ہاتھوں اور قابل دسترس ہے تاہم خدا جب اس کی حقیقت کی بات کرتا ہے تو دور کا ضمیر استعمال کرتا ہے اور کہتا ہے کہ «وہ »
2.ایک اور نکتہ جو اس آیت میں ہے جسمیں کہا جاتا ہے کہ یہ ہدایت کی کتاب ہے مگر متقین کے لیے۔
اس نکتے میں تاکید کی گیی ہے کہ قرآن سب کے لیے باعث ہدایت ہے تاہم جو لوگ حقیقت کو پانا چاہتا ہے اور باطنی پاکیزگی رکھتا ہے قرآن سے استفادہ کرسکتا ہے جیسے بارش جب نازل ہوتا ہے تو زمینوں کو سرسبز و شاداب کرتا ہے لیکن اگر گندی جگہ پر بارش ہو تو اس سے بدبو ہی پھیل جاتا ہے۔/