ایکنا نیوز- ایک بری صفت، رابطوں کو خراب کرنا ہے چاہے جس زریعے سے کی جائے، یہ وسیلہ بھی برا ہے اور انہیں میں سے ایک چغل خوری کی عادت ہے، یعنی حالات خراب کرنے کے لیے کسی کی خصوصی باتوں کو دوسروں کے لیے پیش کرنا یا بتانا۔
قرآن مجید مسلمانوں کو اس سے بچنے کی تاکید کرتا ہے اور رسول گرامی کو خطاب ہوتا ہے اور ان جیسے باتوں سے بچنے کا حکم دیتا ہے، سورہ قلم میں ارشاد ہوتا ہے: «وَلَا تُطِعْ كُلَّ حَلَّافٍ مَهِينٍ هَمَّازٍ مَشَّاءٍ بِنَمِيمٍ مَنَّاعٍ لِلْخَيْرِ مُعْتَدٍ أَثِيمٍ؛ اور جو بہت قسم کھاتا ہے اور پست ہے اس کی اطاعت مت کرو، جو بہت عیب نکالنے والا ہے اور چغل خوری کرتا ہے اور نیک کاموں میں رکاوٹ ڈاالنے والا اور تجاوز کرنے والا گناہ کار ہے ؛»(قلم: 10 الی 12)
لفظ «نميمه»(عربی میں چغل خوری کے برابر ) مختصر اور آہستہ بات کی ہے جو کسی چیز یا انسان کی حرکت سے اس کے پاوں سے صادر ہوتا ہے اور عام طور پر چغل خور انسان دوسروں کے کان میں سرگوشی کرکے بات پہنچاتا ہے تاکہ اہم خبر شمار ہو، یہ لفظ اس کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
اس آیت میں چغل خوری دیگر اہم گناہوں کے مقابل آیا ہے جو اس کی خرابی کی انتہا کو ظاہر کرتا ہے۔ «مشّاءٍ بنميم» کی تعبیر یعنی (جو چغل خوری کرتا ہے) اان لوگوں کی بات ہے جو لوگوں میں چغل خوری سے دلوں میں دشمنیون کی بیج ڈالتا ہے اور یہ گناہ کبیرہ ہے۔
اس آیت میں تربیتی نکتہ یہاں ہے کہ معاشرے میں لوگ ان افراد کی باتوں کی باتوں کو اہمیت نہ دیں تاکہ یہ معاشرے میں قابل نفرت سمجھا جائے۔
اگر کسی جھگڑے کے فریقین اس کی باتوں کو اہمیت دے گا تو بعد میں پشیمان ہوں گے اور ان پر لعنت و ملامت کریں گے لوگوں کو اس سے دور رہنے کا کہیں گے۔/