ایکنا نیوز- قرآن کریم میں ستانوے نمبر پر سورہ کا نام «قدر» ہے. اس سورہ میں پانچ آیات ہیں اور یہ تیسوے پارے میں ہے. «قدر» مکی سورہ ہے اور ترتیب نزول کے حساب سے پچیسواں سورہ ہے جو رسول گرامی اسلام (ص) پر نازل ہوا ہے۔
«قدر» کا مطلب یا معنی اندازه، مقدار اور ویلیو ہے. اس سورے میں با اہمیت رات، اندازہ گیری اور تقدیر بننے کی رات پر اشارہ ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے۔
شب قدر رمضان کی (۱۹، ۲۱ یا ۲۳) رات ہے جس میں قرآن اتارا گیا ہے؛ ایسی رات جسمیں زمین آسمانوں سے متصل ہوجاتی ہے اور اس رات فرشتے اور روح زمین پر اترتی ہے.
سوره قدر کی ابتدائی آیات میں قدر کا لفظ استعمال ہوا ہے اور اسی حوالے سے اس کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے اور اس کی عظمت بیان ہوئی ہے.
سورہ قدر کے محور یا موضوع شب قدر کی اہمیت اور برتری، فرشتوں کے نزول، اور مقدر یا تقدیر ساز رات اور اس رات کی برکتوں پر بات ہوئی ہے۔
اس سورے کی چوتھی آیت میں آیا ہے: «تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِم مِّن كُلِّ أَمْرٍ: اس میں [رات] فرشتے اور روح اپنے پروردگار کے حکم سے، ہرکام کے لیے [جس کی ڈیوٹی ہے] اترتے ہیں». امام خمینی کے مطابق «روح» کے حوالے دو چیزیں امکان پذیر ہے؛ پہلے معنی میں روح سے مراد وہی «روح الامین» اور «جبرئیل» ہے اور دوسرے معنی میں «روح بزرگ» عظیم روح ہے جو بالاتر عقل کل پر مبنی باعظمت فرشتہ ہے۔
علامه طباطبایی اس حوالے سے فرماتے ہیں «امر» کے بارے میں دو چیزوں کا ذکر کرتے ہیں «جهان امر» اس میں فرشتے اور روح اپنے رب کے حکم سے اترے ہیں اور فرمان الھی پر عمل کرتے ہیں۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ وہ ایک عظیم اتفاق کے لیے آئے ہیں جو اس رات رونما ہوں گے اور اس میں تمام فرشتے اور روح امور کی نگرانی کے لیے یہاں آتے ہیں۔/